اسلام کے مخالف اور سیاسی چال پائی۔ اس بارہ میں حضور والا سے زبانی گفتگو ہونے پر کچھ مجھ پر عتاب ہونے لگا۔ مگر اب چونکہ مجھے حضور والا کی رندانہ پالیسی سے واقفیت ہوچکی تھی۔ اب عتاب کی پرواہ نہ کی گئی اور اس بات کا افسوس ہونے لگا کہ الٰہی ہم نے اپنی زندگی کا عزیز حصہ ایک ایسے شخص کے دام فریب میں پھنس کر گزار دیا ہے۔ جس کو صرف ؎
زن نوکن اے خواجہ ہر نو بہار
کہ تقویم پاریں نہ آئند بکار
کے سوائے اور کچھ ایمان کی فکر ہی نہیں۔ اب مجھے دل کھول کر خلیفہ کے حالات کا مطالعہ کرنے کی دھن لگ گئی اور خلیفہ اور ان کے رفقاء نے دریدہ میرے سوالات کے جواب دینے کی بجاء مجھ پر قانونی کاروائیاں کرانے کے لئے خطوط امور عامہ سے لکھوائے۔ مگر وہ خدا جس کے لئے ہم نے اپنی جان عزت کو وقف کر رکھا ہے۔ اس نے اس کی دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کر دیا۔ جس کو آج تک ہیر پھیر کے پردہ میں چھپا رہے ہیں۔ مگر خدا قادر اور غیور ان کے پردہ کو ضرور چاک کرے گا۔
ایک عرصہ تو میں نے ان کے عتاب برداشت کئے اور دیوانہ وار حالات دریافت کرنے میں قدم آگے ہی بڑھایا اور یہی خیال تھا کہ ؎
کر مجھے جوش جنوں اور ذرا خوار وذلیل
مجھ سے ایسا ہو کہ ناصح کو بھی عار آجائے
اب بجا طور پر مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ مرزاقادیانی کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اس کی زندگی کا ہم نے مشاہدہ نہیں کیا اور اس کے ہاتھ پر ہم نے اپنے آپ کو قربان کر دیا ہے۔ اب اس کے حالات اور اقوال تجاویز سے اس کی دنیا داری بہ پیرایۂ مذہب کی ہمیں اطلاع ہوگئی ہے۔ کیا ناممکن ہے کہ مرزاقادیانی کی زندگی اور صداقت بھی جو اسی شخص نے ہمارے سامنے بیان کی ہے۔ دھوکا اور کذب سے کام لیا ہو۔ لہٰذا ہم نے اپنے خدا کی مرضی سے اس مرزائیت کے طوق لعنت کو گلے سے اتار پھینکا اور اپنے طور پر مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ اور تحقیق شروع کر دی اور اپنے احباب اور اکابر قوم کے ارشاد سے اصلاح خلق کے لئے اس تحقیق کو قلم بند کر دینا مناسب خیال کیا۔ پہلے اس کتاب کا حجم بہت زیادہ ہوچکا تھا اور شائقین تحقق چاہتے ہیں کہ جلد طبع ہوکر ان سے یہ تحقیق خراج تحسین حاصل کرے۔ لہٰذا ان کی خواہش پر اس کے کئی حصص کر دئیے گئے ہیں اور حصہ اوّل آئندہ صفحات پر آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔