بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!دیباچہ
عرصہ کم وبیش پندرہ برس کا ہوا کہ میں بعد از تحصیل بعض علوم مروجہ وغیرمروجہ، علماء وفقراء اور احباب اصفیاء کے ذوق مصاحبت سے متاثر ہوکر مجاہدات کی سرشاری اور تنہائی طلبی کی خماری رکھتے ہوئے دریاؤں کی ساحلی چٹانوں اور جنگل کی پرخاروادیوں میں شب وروز کی خلوت گزینیوں اور چلے کشیوں میں مشغول تھا، کہ یکایک آسمان نحوست پر اختر بدبختی نے طلوع کیا، اور محرکات شیطانیت نے تحریک قادیانیت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے میرے آمان ایمان میں لغزش کی توجہ پیدا کر دی اور سادگی کے عالم میں کشاں کشاں مجھے قادیان لے جایا گیا۔
انسان کو قبل از وقت خداتعالیٰ کے باریک درباریک اور نہاں درنہاں اسرار وتصرفات کا علم کیا ہوسکتا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ میرے جیسے دور افتادہ کو کن کن تنگ اور پرخار راہوں سے حکیم مطلق نے گزار کر مقصود مطلوب تک پہنچانے کی عجیب غریب مشیت فرمائی ہے۔ الحمد ﷲ علیٰ ذالک!
المختصر قادیانیت کا طوق لعنت جو میرے لئے قسام ازل نے مقدر کر رکھا تھا۔ مجھے قبول کر کے جن جن حالات سے گزرنا پڑا وہ تصور کے منتہیٰ سے متجاوز ہو کر بھی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت قادیان کی طرف سے آنریری مبلغ ہونے کے علاوہ دیگر کئی ذمہ دارانہ امور کا مجھے کارکن بنارکھا گیا۔ ایمان وراستی کی بناء پر اخراجات زرومال سے گریز اور قربانی ٔ جان وعزت سے پرہیز نہیں کیاگیا۔ جیلوں کی صعوبتوں اور دیگر کئی قسم کے مصائب کی عقوبتوں کی پرواہ نہیں کی گئی تھی۔ عزیزوں کے مقاطعوں اور پیارے دوستوں کی جدائیوں کے تلخ ترین کاسۂ صبر وبرداشت سے پی پی کر بجاء الطاف محبت کے درد فراق احباب کو سلگتی ہوئی آگ کی طرح عشق ومحبت کے بھرے دل میں دبا رکھا گیا۔ جس کی حقیقت وکیفیت کو اصحاب دل اور ارباب عشق ہی اندازہ کر سکتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی اپنے پیارے احباء کی جدائی دیکھنے کا موقع پایا ہو۔ لیکن بایں ہمہ دل میں اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کا وہ جوش تھا کہ حال سے یہی بیان ہوتا تھا ؎
جس زخم میں ہو ممکن تدبیر رفو کی
لکھ دیجئے یا رب اسے قسمت میں عدو کی