جیسا کہ گذشتہ صفحات میں حاشیہ میں بالاجمال کہاگیا۔ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہے۔ جسے بڑی حد تک قومی حکومت کہا جاسکتا ہے اور اس کے اعضاء وارکان میں اکثریت اس پاکستان قومی اتحاد کی ہے۔ جس نے پاکستان میں اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے عنوان پر ہی وہ عظیم جدوجہد شروع کی۔ جو اسلامی سوشلزم کے منافقانہ اور ملحدانہ تصور اور نعرے پر قائم بھٹو حکومت کے زوال کا باعث بنی۔ اگر یہ حکومت آسمانی تائید سے ثبات واستحکام حاصل کرپائے تو اس کے دوسرے اہم تر فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ کم ازکم قادیانیوں کی تنظیم کو خلاف قانون قرار دے اور اس کے تقاضے پورے کرے۔
قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں
امت مسلمہ کا عقیدہ اور عمل چودہ سوسال سے یہ ہے کہ:
الف…
ہر وہ شخص جس نے حضور ختم المرسلینﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کیا۔
ب…
اور ہر وہ شخص جس نے اس مدعی نبوت کو تسلیم کیا۔
دونوں اگر پہلے مسلمان تھے تو مرتد ہیں اور اگر یہ پہلے غیرمسلم تھے اور اب انہوں نے یہ دعویٰ کیا یا اسے تسلیم کیا تو ان کا کفر دوسری تمام انواع کفر سے زیادہ اہم خطرناک اور اشد ہوگا۔ قرآن مجید برملا فرماتا ہے: ’’ومن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الیّ ولم یوح الیہ شیٔ (الانعام ص۹۳)‘‘ {اور اس سے کون بڑا ظالم ہوسکتا ہے جس نے اﷲتعالیٰ پر افتراء باندھا یا اس نے یہ کہا کہ میری جانب وحی کی گئی ہے۔ درانحالیکہ اس پر ایک حرف وحی کا نازل نہ کیا گیا ہو۔}
حضور خاتم النبیینﷺ کا دوٹوک فیصلہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے بعد جو شخص کسی مدعی نبوت کے دعویٰ کی تصدیق کرے اور اسے مان لے وہ واجب القتل ہے۔ ابوداؤد طیالسی فرماتے ہیں: ’’عن ابی وائل عن عبداﷲ قال جاء ابن النوامۃ وابن اثال رسولین لمسیلمۃ الکذاب الی رسول اﷲﷺ فقال لہما رسول اﷲﷺ تشہد ان انی رسول اﷲ فقالا تشہد ان مسیلمۃ رسول اﷲ فقال رسول اﷲﷺ امنت باﷲ ورسلہ لوکنت قاتلا رسولا لقتلتکما وفی روایۃ بن اسحق عن سلمۃ ابن نعیم ابن مسعود عن ابیہ فقال واﷲ لولا ان الرسل لاتقتل‘‘ {ابن النوامہ اور ابن ثال دونوں بحیثیت سفیر مسیلمہ کذاب حضورﷺ کے ہاں آئے تو حضورﷺ نے ان سے