خلاف قانون قرار نہ دیا جائے اور اس فیصلے کے وہ تقاضے پورے نہ ہوں۔ جو دنیا بھر میں خلاف قانون قرار دئیے جانے کے معروف تقاضے ہیں۔ اس وقت تک قادیانی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ
رہا یہ کہ ۱۹؍شعبان المعظم ۱۳۹۴ھ (۷؍ستمبر ۱۹۷۴ئ) کو جو فیصلہ پاک پارلیمان نے دیا۔ اس کی حیثیت کیا ہے؟ تو ہم تمام نزاکتوں اور تحفظات کا احساس رکھنے اور ان کی رعایت کے باوجود یہ کہنا اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور ہمارے ذمہ یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ ہم صاف صاف لیکن مجمل اشارات کی صورت میں کہہ دیں کہ ’’غیرمسلم اقلیت‘‘ قرار دینے سے قادیانی مسئلہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ اس کی بعض پیچیدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ یہ فیصلہ ضرور ہوگا کہ قادیانی امت محمدیہ سے الگ امت ہیں اور ان دونوں امتوں میں دین کا کوئی رشتہ موجود نہیں ہے۔ لیکن اس فیصلے کی افادیت اور خود اس فیصلے کو کم ازکم قانون کے تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کے لئے ازبس ضروری ہے کہ وہ امور جو ۶؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے نمائندوں اور اس وقت کے وزیراعظم اور ان کے نمائندے عبدالحفیظ پیرزادہ کے مابین طے پائے تھے اور جن کے بارے میں متعدد بار وزارت قانون اور دوسرے حضرات نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ان تقاضوں کے مطابق جلد ہی قانون سازی ہوگی۔ وہ لامحالہ قانونی حیثیت سے نافذ ہونے چاہئیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو قادیانی مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو جائے گا اور اس کی پیچیدگی کے پریشان کن مرحلے تک پہنچنے کے بعد جو تحریک اس حل کرنے کے لئے ازخود ابھرے گی وہ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء کی تحریکات سے زیادہ شدید اور قوی ہوگی۔
(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے: ’’قادیانی مسئلہ اقلیت قرار دیے جانے کے بعد‘‘)
ضروری نوٹ: کتاب کی ترتیب جیسا کہ تقدیم میں لکھاگیا۔ صفر المظفر۱۳۹۷ھ (فروری۱۹۷۷ئ) میں شروع کی گئی تھی۔ مگر اس دوران پاکستان میں اس وقت کے جابر وسفاک اور ناقابل اعتماد وزیراعظم کی سفاکیّت، بے دینی اور پاکستان دشمنی کے خلاف ایک ایسی جدوجہد شروع ہوئی جو چند ہفتوں میں برصغیر ہی نہیں اس دور کی اجتماعی زندگی میں اس وقت وسعت اور شدت پذیر ہوئی کہ آخرکار اس مکار اعظم کی حکومت کا تختہ الٹا۔ اس کی مضبوط کرسی، ٹوٹی اور یہ اپنے اعمال کی پاداش میں پابند سلاسل ہے اور بہت سے قابل سماعت مقدمات میں سے پہلا مقدمہ قتل پاکستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں زیرسماعت ہے۔