اپنے متعلق صدق وکذب کا جو معیار مرزاقادیانی نے خود مقرر کیا۔ اس کے رو سے بھی مرزاقادیانی خود جھوٹے ثابت ہوئے۔ مولوی ثناء اﷲ اور ڈاکٹر عبدالحکیم خان سے آخری فیصلہ کا اشتہار دیکھا ہوگا۔ مولوی صاحب زندہ سامنے بیٹھے ہیں اور بھی دیکھ رہے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی کہاں ہیں۔ اس موقعہ پر مرزائی حاضرین میں سے ایک صاحب نے ڈپٹی صاحب کے کان میں کچھ کہا۔ جس کے طرز گفتگو سے معلوم ہوا کہ شکایت کر رہا ہے۔ اس پر فاضل مقرر نے یہ شعر پڑھا۔
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم بات بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
فاضل مقرر نے کہا کہ یہ ہم نہیں کہتے۔ بلکہ خود مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ اگر ’’محمدی بیگم‘‘ سے میرا نکاح نہ ہو تو میں بد سے بدتر ہوں۔ نکاح کا آسمان پر ہونا بھی بیان کیاگیا۔ مگر نتیجہ سب کو معلوم ہے کہ اس پیشین گوئی کا کیا حشر ہوا۔
لطیفہ: ایک شخص نے بیان کیا کہ بادشاہ کی لڑکی سے میرا نکاح ہوگیا۔ جب کیفیت دریافت کی گئی تو بولا کہ بی بی اور میاں کی رضامندی سے دونوں کا نکاح ہوا کرتا ہے اور چونکہ میں راضی ہوں۔ لہٰذا آدھا نکاح ہوگیا اور آدھا نکاح شہزادی کے راضی ہونے پر ہوگا۔
یہی مثال مرزاقادیانی کی ہوئی۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ادھر مرزاقادیانی نے محمدی بیگم سے اپنا نکاح ہونا بتایا۔ ادھر اس کے والد نے اس کی شادی دوسری جگہ کر دی۔ افسوس کہ مرزاقادیانی کی کوئی بات بھی پوری نہ ہوئی۔
اور سنئے! مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہود کو گالیاں دیا کرتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ آپ (عیسیٰ) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔ معلوم ہوا کہ آپ بھی تو ان کے بروز ہیں۔ اس لئے ان عادتوں کا ہونا آپ کے لئے بھی ضروری ہوگا اور سنئے کہتے ہیں کہ آپ (عیسیٰ) نے یہودیوں کی کتاب سے چرا کر انجیل لکھی۔ زیر کی سے آپ کو کچھ حصہ نہ دیا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر نہیں ہوا۔ سوائے اس کے کہ آپ (عیسیٰ) معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور شریفوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵،۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
ممکن ہے کسی اپنی معمولی تدبیر سے شکوہ کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی ایک تالاب موجود تھا۔ کوئی معجزہ تھا تو اس کا تھا۔ مگر مرزاقادیانی نہیں بتاتے کہ آپ نے کیا کیا؟ پھر مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ آپ (عیسیٰ) کے ہاتھ میں سوائے مکروفریب کے اور کچھ نہ تھا۔ (نعوذ