ہوزاھق ولکم الویل مما تصفون (انبیائ:۱۸)‘‘ سے تقریر شروع کی اور کہا کہ اس کا مجھے افسوس ہے کہ میری زبان اور ہے اور آپ کی اور۔ لیکن بہرحال میں آپ کا مدعا آپ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کروں گا۔ کتاب ’’انجام آتھم‘‘ سے میں آپ کو کچھ سناتا۔ مگر مصلحت انجمن کے خلاف سمجھ کر چھوڑتا ہوں۔ حضرات! آج ایک شخص مسیحیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ مگر جناب محمد رسول اﷲﷺ کی حدیث موجود ہے۔ دیکھ لو اور سمجھ لو۔ سپاہی اپنے نشان وردی وغیرہ سے پہچانا جاتا ہے۔ پس وہ علامات جو نبی کریمﷺ نے فرمائی ہیں۔ جس میں پائی جائیں ہم اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں۔ ارشاد نبوی ہے۔ ’’فتنہ کے زمانہ میں مسیح نازل ہوںگے۔ اس وقت مال کی اس قدر بہتات ہوگی کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ صلیب توڑدیں گے۔ دجال ملعون کو قتل کریں گے۔ مسلمانوں سے جزیہ اٹھائیں گے۔ (بخاری) مسند ابوداؤد میں ہے کہ دنیا پر ایک سکہ اسلامی ہوگا اور بس۔
مگر مرزاقادیانی اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۶۸) پر اس کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ: ’’مال پڑے گا‘‘اس کے معنی ہیں کہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے یہی وہ مال ہے جس کی نسبت پیش گوئی ہے کہ مسیح اس کو پھیلائے گا۔ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے۔ صاحبان اگر یہی قرآن مال ہے جو مرزاقادیانی نے فرمایا ہے تو کیا دنیا میں اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں۔ افسوس!
لطیفہ: ایک شہزادہ نے نجوم کا علم سیکھا۔ کسی نے مٹھی میں انگشتری لے کر اس سے پوچھا کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ نجومی شہزادہ نے کئی کاغذ کالے کر کے بتایا کہ چکی کا پاٹ ہے۔ آدمی ہنس پڑا اور دکھا کر کہنے لگا کہ یہ تو انگشتری ہے۔ بھلا چکی کا پاٹ مٹھی میں آسکتا ہے۔ نجومی میاں جھٹ بول اٹھے۔ کچھ ہی ہو گول تو ہے۔
سو مرزاقادیانی کو تو گول ہی سے غرض ہے۔ معنی مطلب خواہ کچھ ہی ہوں۔
دجال کی شناخت
صحیح حدیثوں میں وارد ہے کہ دجال بڑی قوت سے آئے گا اور دنیا کو اپنی ڈھب پر مٹائے گا اور دجال کا نا ہوگا۔ اگر میرے وقت میں آیا تو میں اس سے نمٹ لوں گا ۔ اگر بعد میں آیا تو خدا اسلام کی حفاظت کرے گا۔
اس پر مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳) پر لکھتے ہیں کہ دجال کی حقیقت نبی کریمﷺ پر نہیں کھلی۔ اب خود فیصلہ کر لو کہ مرزاقادیانی صحیح جانتے ہیں یا