ایک لڑائی میں آنحضرتﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔ فرشتوں نے آکر عرض کیا۔ اے محمدﷺ! اگر کہو تو ان کفار کو نیست ونابود کر دیا جاوے۔ حضورﷺ نے فرمایا۔ خداوند کریم سے بعد سلام عرض کرو کہ نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی اولاد سے کوئی مسلمان ہو۔ (اﷲ اکبر یہ تھے اخلاق عالیہ رسول پاک کے) وہ رسول جس کی شان ہے۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ خاتم کے معنی انگوٹھی، مہر اور قوم کے آخر آنے والے کے ہیں۔ ’’خاتم النبیین‘‘ جمع قلت ہے۔ مگر الف لام سے جمع کثرت ہوگئی۔ گویا تمام قسم کی نبوت (بروزی ہو یا ظلی یا کوئی اور قسم) سب ختم ہوگئیں۔ اب آپ لوگ سمجھ لیں کہ جو لوگ ظلی وبروزی بن بیٹھے ہیں وہ کہاں تک راستی پر ہیں؟
صاحب! جس نبی کے اخلاق کا ذکر میں نے کیا۔ اب اس کے پاس بیٹھنے والوں کا ہی حال سن لو۔ حضرت عمرؓ کو کیا کندن بنادیا تھا۔ جس پر نظر ڈالتا اس کو بھی کندن بنا دیتا۔ غیر مسلم بادشاہ کا قاصد آتا ہے اور پوچھتا ہے امیرالمؤمنینؓ کہاں ہیں۔ تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے کو خرخرہ کر رہے ہیں۔ قاصد کہتا ہے کہ کیا امیرالمؤمنینؓ ہے؟ اس کی کیا حکومت ہوگی۔ مسلمان جواب دیتے ہیں کہ اس کا قبضہ دلوں پر ہے۔ یہ امیرالمؤمنین ہے۔ یہ وہ عمرؓ ہے جس کی نسبت ارشاد نبویؐ ہے کہ: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اﷲﷺ کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کی نیکیاں ستاروں کے برابر ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’عمرؓ‘‘ ہے۔
حضرت عمرؓ بہ نفس نفیس خود رعایا کا حال دریافت کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ کو گشت کرتے ہوئے ایک عورت کے رونے کی آواز آئی۔ جو آپ ہی کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ آپ نے سنا اور اس سے جا کر پوچھا۔ بڑی بی کیوں کیا ہوا؟ بولی میرے خاوند کو فوت ہوئے سات سال ہوئے۔ گھر میں کچھ نہیں۔ بچے بھوک کے مارے بلبلا رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ امیر کو اس کی اطلاع بھی دی ہے؟ عورت نے جواب دیا کہ بکری کی خبر گیری چرواہے پر واجب ہے نہ کہ بکری اس کو اطلاع دے۔ امیرالمؤمنینؓ یہ سن کر بیت المال میں گئے اور چاول وغیرہ خوراک اپنی پیٹھ پر لاد کر خود لائے اور اس سے معذرت کی۔ یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے فیضان نبوت سے اقتباس کیا تھا اور یہ تھے وہ امیر وحکمران جو آئندہ نسلوں کے لئے اخلاق وعدل کے نمونے قائم کر گئے۔