ہی حضورﷺ کے بعد مدعیان نبوت کو واجب القتل کی حیثیت دی گئی ہے اور امت اس لمحہ تک اس عقیدے اور فتویٰ کی حامل رہی ہے۔
اسلام کی یہ اصطلاح نزاع سے پاک ہے کہ جو شخص اپنا دین بدلتا ہے۔ یا جس دین کو وہ اب تک صحیح تسلیم کرتا تھا۔ اگر وہ اس کے اساسی معتقدات سے انحراف کر کے ان کے بالضد عقائد کو قبول کر لیتا ہے تو اسے لغت اور اصطلاح دونوں میں مرتد کہا جائے گا اور یہ بات بھی واضح اور مسلم ہے کہ مرتدان کفار سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ جو پیدائشی کافر ہوں اور کبھی مسلمان نہ رہے ہوں۔ مرتد کفار سے زیادہ سختی کا مستحق ہے اور مزید یہ کہ مرتد واجب القتل ہے۔
ارتداد یا خلاف قانون
لیکن ہم اس وقت مسئلہ ارتداد کے دلائل کی اہمیت، اسلام میں اس مسئلے کے مقام اور اس کے تقاضوں پر بحث کو اس لئے نظرانداز کرتے ہیں کہ اوّلا تو زیربحث موضوع کا تعلق علماء دین کے فتوے سے کم اور پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کی مجالس مقننہ کے قانونی فیصلے سے زیادہ ہے۔ جو قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دئیے جانے کے بارے میں کیاگیا ہے۔ ثانیاً ارتداد کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا بعض دوسرے مسلم اور پابند شریعت ممالک میں تو ممکن ہوسکتا ہے۔ بوجوہ پاکستان۱؎
۱؎ آج کا پاکستان: زیر مطالعہ کتاب کی تالیف اس بدترین عہد میں ہوئی تھی جو دنیا کے سب سے بڑے ظالم خداع حکمران بھٹو کا عہد تھا۔ کتاب کی اشاعت اس دشمن عوام اور غدار اسلام حکومت کے زوال کے بعد اس اضطراب انگیز دور میں ہو رہی ہے۔ جس میں اسلام کے نام پر حکمرانی اپنے دور اوّل میں ہے اور پاکستان کے مسلمان ایک دوراہے پر ہیں۔ اگر یہ حکومت اسلامی شریعت کے نفاذ میں کامیاب ہوتی ہے اور اس کے اعضاء وارکان بنیان مرصوص بن کر علم اسلام کو تھامتے ہیں تو دنیا پھر سے اس موسم بہار کا نظارہ کرے گی۔ جس کا دل آویز مشاہدہ خلافت راشدہ کی جھلک دکھانے والی اسلامی حکومتوں کے عہد والوں نے بارہا کیا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس عظیم مہم میں ناکامی ہوتی ہے تو نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کے عہد ومیثاق پر قائم ہونے والی مملکت کا کیا بنے گا اور اس کے کروڑوں باشندوں کا مستقل کیا ہوگا؟ ’’اللہم رحمتک نرجوا فلا تکلنا الیٰ انفسنا ولا الیٰ احد من خلقک طرفۃ عین واصلح لناشاننا کلہ لا الہ الا انت ویاارحم الراحمین خذبایدینا ونوا صینا واھد قدوتنا واصلح ولاۃ امورنا واجعل کلمتک ہی العلیا کلمۃ الذین کفروا صدوا عن سبیلک السفلیٰ برحمتک یا ارحم الراحمین‘‘