الف…حضور اکرمﷺ کو نبی مانتا اور حضور ہی کا کلمہ پڑھتا اور اذان میں اس کا مقرر کردہ مؤذن ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ ہی کہتا تھا اور مسیلمہ اذان میں اس شہادت کی تصدیق زبان اور شہادت کی انگلی اٹھا کر کیا کرتا تھا۔
ب…
اس کا دعویٰ فقط یہ تھا کہ میں بھی حضورؐ کے ساتھ نبوت اور اس کے بعد خلافت میں شریک کیاگیا ہوں۔
ج…
اس نے خود اپنے قلم سے حضورﷺ کو محمد رسول اﷲ لکھا۔
حضور کی جانب اس کے خط کا آغاز اس جملہ سے تھا۔ ’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الیٰ محمد رسول اﷲ‘‘ یہ خط مسیلمہ رسول اﷲ کی جانب سے اﷲ کے رسول محمد ﷺ کی طرف ہے۔ (تاریخ الطبری ج۲ ص۲۰۳)
لیکن اس سب کچھ کے باوجود حضور امام الاتقیاء رحمتہ اللعالمینﷺ کا ردعمل مسیلمہ کے دعویٰ نبوت پر یہ تھا کہ… آپؐ نے مسیلمہ کے سفیروں سے مخاطب ہوکر دریافت فرمایا: ’’وانتما تقولان بمثل ما یقول‘‘ کیا تم وہی کہتے ہو جس کا دعویٰ مسیلمہ کرتا ہے؟
انہوں نے جواب دیا۔ نعم۔ ہاں ہم وہی کہتے ہیں۔ جس کا دعویٰ مسیلمہ نے کیا۔ اس پر اولاد آدم علیہ السلام میں سب سے بڑے غیور فی اﷲﷺ نے فرمایا: ’’اما واﷲ! لولاان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘‘ اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہیں کئے جاتے تو تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ (تاریخ الطبری ج۲ ص۲۰۳،۲۰۴)
جیسا کہ ابھی ذکر ہوا۔ ازاں بعد حضور اکرمﷺ کے خلفیہ برحق ارحم الامۃ سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کے زیرقیادت صحابہؓ کی ایک عظیم تعداد کو جب مرتدین کے خلاف جہاد کے لئے بھیجا تو انہوں نے طلیحہ اسدی کو شکست دینے کے بعد مسیلمہ کذاب کے خلاف معرکہ بپا کیا۔ سیدنا خالدؓ کے زیرکمان تقریباً تیرہ ہزار صحابہؓ کی فوج تھی اور مسیلمہ کذاب کے فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار تھی۔
سیف اﷲ خالدؓ بن ولید نے انتہائی شدید لڑائی لڑی۔ مسلمانوں میں سے تقریباً ایک ہزار بہترین افراد نے جام شہادت نوش کیا اور مسیلمہ کذاب کے دس ہزار امتی جہنم رسید ہوئے اور مسیلمہ خود بھی واصل جہنم ہوا۔
القصہ:… حضور خاتم النبیینﷺ اور خلاف راشدہ کے عہد سعادت سے ہی