اس کے بعد آپ نے چند مثالیں بیان کیں۔ یعنی یہ کہا کہ بجلی کی بتیاں جلتی ہیں۔ ان سب کا تعلق مرکزی کارخانہ سے ہوتا ہے۔ مگر کارخانہ کی کل میں کچھ نقص آئے تو بجلی کی روشنی کسی گھر میں بھی نہیں پہنچتی۔ اسی طرح نہر (۱)اور چشموں کے پانی سے باغ وباغیچے اور کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔ آفتاب کی مثال بیان کی کہ اس کے نور سے سیارے وستارے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ حضرات انبیاء علیہم السلام، عیسیٰ وموسیٰ اور دیگر مثل ستاروں کے ہیں اور محمد رسول اﷲﷺ مثل آفتاب کے، روشن سب ہیں۔ مگر حضرت سید الانبیائﷺ ہیں اور ان کے نور نے سب پر روشنی ڈالی ہے۔ اب آپ سمجھ لیں کہ کسی دوسرے شخص میں یہ قابلیتیں اور خصوصیتیں کہاں؟ جو جملہ انبیاء علیہم السلام کے لئے فیضان نعمت کا مرکز قرار دیا جاسکے۔
نماز کی تاکید
بیان کرتے ہوئے کہا کہ حدیث میں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا جو شخص مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کرتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے گھر جلا دوں اور جو نماز ہی نہ پڑھے وہ مسلمان کیا۔ وہ قیامت کے دن شداد، فرعون، نمبرود وغیرہ کے ساتھ ہوگا۔ اس لئے بھائیو! نماز پڑھا کرو اور باجماعت ادا کیا کرو۔ یہ حکم اس رسول پاکﷺ کا ہے جس کی جدائی میں ستون تک رویا کرتے تھے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ جب منبر نہ تھا تو حضورﷺ ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہوکر خطبہ سنایا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو یہ معجزہ تھا کہ وہ مردوں کو بحکم خدا زندہ کیا کرتے تھے۔ لیکن آنحضرتﷺ کا معجزہ دیکھئے کہ جب منبر بن گیا تو وہ ستون لکڑی کا جس کے ساتھ کھڑے ہوکر آپﷺ خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ دیکھا کہ رو رہا ہے۔ جس پر مولانا روم فرماتے ہیں ؎
مسندت من بودم از من تاختی
برسر منبر تو مسند ساختی
اخلاق کا ذکر ایک شخص ثمامہ نامی حضورﷺ کے ماننے والوں کو گالیاں اور تکلیفیں دیا کرتا تھا۔ وہ قابو میں آگیا۔ حضورﷺ نے اس کو ستون سے باندھ دیا اور فرمایا کہ کہو اب تجھ سے کیا سلوک کیا جاوے۔ ثمامہ نے کہا کہ اے محمدﷺ اگر مجھ کو قتل کر و گے تو بے شک ایک سزاوار قتل کو قتل کروگے اور اگر چھوڑ دو گے تو آپ کا احسان ہوگا۔ حضورﷺ نے اس کو چھوڑ دیا اور وہ حضورﷺ کا اس حسن سلوک کے باعث مشکور ہونے کے علاوہ مسلمان ہوگیا۔