اختلاف ہے۔ مرزاقادیانی ہمارے سامنے ایسے خیالات پیش کرتے ہیں جو پہلے نہ تھے اور کہتے ہیں کہ ان کو مانو۔
جب ہم ادھیلے پیسے کا مٹی کا پیالہ خریدتے ہیں تو اچھی طرح اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اگرچہ دوکاندار اپنے پیالہ کی تعریف وتصدیق کرتا ہوا خریدار کو اپنی طرف جھکاتا ہے۔ مگر خریدار حتی الوسع اپنی تسلی کر لیتا ہے۔ پس ایک شخص جو ہمارے ان خیالات کو جو قرن بعد قرن ہم تک پہنچے ہیں۔ الٹتا ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہم بھی اس کو جانچیں۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’میرے جیسا کسی کو نہ سمجھو اور نہ کسی کو میرے جیسا۔‘‘ میں وہ سورج ہوں جس کے سامنے دھواں نہیں آتا۔ فرماتے ہیں میرے آنے سے سب سورج ڈوب گئے۔ میرا پاؤں اس منارہ پر ہے۔ جہاں سب اونچائیاں ختم ہوگئیں۔ فرماتے ہیں ؎
آنچہ داد است ہر نبی راجام
دادآں جام را مرا بہ تمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
یعنی جو خدا نے سب نبیوں کو جام پلایا وہ بڑا کر کے مجھے دیا۔ لکھتے ہیں ؎
صد حسین است در گریبانم
(حوالہ بالا)
فرماتے ہیں ؎
کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص۱۳۳)(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) اپنے چوکوں پر ناکہ بندیاں کر دیں۔ جابجا پہرے لگوادئیے۔ ٹین کے پیپے کثیر التعداد میں پانی سے بھروا کر رکھ لئے کہ اگر آگ لگ جائے تو ان سے بجھا سکیں۔ اسلامی جلال وسطوت کا ان پر ایسا غلبہ ہوا کہ وہ اپنے سایہ سے دوڑتے رہے اور ان علماء حضرات سے اپنے مریدوں کو ڈراتے رہے۔ تھانہ دار صاحب نے ان خطرات کی بناء پر انجمن اسلامیہ قادیان سے ایک اقرار اس مضمون کا لکھوایا کہ ہم مرزاقادیانی کی ذات پر کوئی رحم نہ کریں گے۔ ان کی کتابوں کے حوالہ جات سے ہمیں ان پر نکتہ چینی کا حق حاصل ہوگا۔ اس کی طرف مولانا نے اشارہ کیا ہے۔