اس پیش گوئی کی میعاد میں جب صرف ڈیڑھ ماہ یا اس سے بھی کم رہ گیا اور نوجوان معہ اپنی اہلیہ راولپنڈی میں مقیم تھا۔ تو حکیم مولوی نورالدین کے ایک شاگرد نے جو مرزاقادیانی سے بیعت کر کے مشکک ہوگیا تھا۔ ایک احد العین حواری کو اس مضمون کا خط لکھا۔
’’مجھے سخت اندیشہ ہے کہ مثل دیگر پیش گوئیوں کے یہ پیش گوئی بھی وقوع میں نہ آوے۔ کیونکہ عقد کرنے والا نوجوان تو بھلا چنگا ہے۔ بال بھر بھی ہراس نہیں۔ تو حواری کیا جواب دیتا ہے کہ اے عزیز اس نوجوان نے رجوع بحق کر لیا ہے۔ (کیا پہلے کافر تھا) اور بذریعہ خطوط اس لڑکے کے خویش واقارب مرزاقادیانی کے حضور روتے اور گڑگڑاتے ہیں۔ (سفید جھوٹ) پس عجب نہیں کہ پیش گوئی کی میعاد بڑھ جاوے۔ چونکہ آپ نے دریافت کیا ہے۔ اس لئے یہ کانفیسڈنشل خط آپ کو لکھا گیا۔‘‘
یہ خط جب راولپنڈی پہنچا تو مکتوب الیہ نے ان دشنام اور سخت الفاظ کی فہرست تیار کی جو نوجوان کی زبان سے مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کے حق میں نکلی تھیں اور جن معتبر اشخاص کی حاضری میں یہ سخت کلمات ایک دردمند دل سے نکلے تھے۔ ان کے نام بھی فہرست میں درج کئے اور ’’واحد العین‘‘ کو جتایا کہ نوجوان کا تو یہ حال ہے اور آپ فرماتے ہیں۔ اس کی طرف سے رجوع بحق کے خطوط آرہے ہیں۔ رجوع بحق کس جانور کا نام ہے اور یہ اس کی کیسی نرالی فلاسفی ہے۔ جو آپ نے چھانٹی ہے۔ آپ راولپنڈی تشریف لاویں اور جو کچھ میں نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ اس کی تصدیق کر لیں اس کا جواب حواری مذکور نے کچھ نہ دیا اور دے ہی کیا سکتا تھا۔ اس مقام پر چند باتیں غور طلب ہیں۔
۱… معافی اور رجوع بحق کا کیا ثبوت ہے؟ اگر ذرا بھر بھی نوجوان یا اس کے رشتہ داروں کی طرف سے لب جنبانی ہوتی تو مرزاقادیانی جو رائی کو پہاڑ اور قطرہ کو سمندر بنا کر دکھانے والے ہیں۔ کتابوں پر کتابیں اور اشتہاروں پر اشتہارات لکھ مارتے۔ مگر خاموش رہنا پڑا۔۲… بی بی متنازعہ کس کے پاس ہے؟ اور کس کے بال بچے اس کے پاس ہیں؟ یقینا اسی نوجوان کے پاس اور اسی کی اولاد۔
۳… الہام کی نسبت کیا خیال کیا جاوے جو ’’زوجناکھا‘‘ کے مضمون کا مرزاقادیانی پر نازل ہوا تھا۔
۴… اگر رجوع بحق ہوگیا تو مرزاقادیانی کی موجودہ بی بی (ام المؤمنین) اپنی سوت کے لئے کیوں دعائیں مانگ رہی ہے؟ (سیرت المسیح موعود ص۳۲)