جن کا ایک خلق اﷲ کے سامنے خون ہوا اور جن کا مرزاقادیانی کی جماعت کے لیڈنگ ممبروں کو بھی اعتراف ہے کہ وہ جھوٹی ہوئیں۔
اور نجومی ورّمال بڑی بڑی گپیں ہانکا کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کی کوئی گپ ٹھیک بھی ہو جایا کرتی ہے۔ تو کیا اس سے لازم ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ صحیح کہا کرتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر کسی طرح مرزاقادیانی کی بھی ایک گپ اتفاقیہ چل گئی تو اس کی وقعت ایک نجومی یا جوتشی کی گپ سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی۔
پھر اس پر بھی مرزاقادیانی کی مراد بر نہ آئی۔ باوجود یکہ مقتول ایک شدبود کے سوا علمی گھوڑ دوڑ میں اپاہج تھا اور عیسائیوں وغیرہ کی خوشہ چینی کر کے مسلمانوں کے برخلاف مرزاقادیانی کی اکساہٹ اور اشتعال دینے پر کتابیں لکھتا تھا۔ مگر اس کی موت کے موقعہ پر سب فرقے اہل ہنود کے جو ایک مدت مدید سے آپس میں چھری کلہاڑی ہو رہے تھے۔ یک دل ایک زبان ہوگئے اور ایسا شور وغل مچا دیا کہ سب مسلمانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا اور اسلامی دنیا ان کے خیال میں ؎
گنہگار بودند اگر بے گناہ
حالانکہ سوا مرزاقادیانی مصلح قوم کی پیش گوئی کے کسی کا کچھ تصور نہ تھا۔
اگرچہ خدا کو معلوم ہے کہ مقتول کو کس نے قتل کیا۔ مگر اس شبہ اور دھوکہ میں کہ شاید کسی مسلمان کا کام ہو۔ اہل ہنود اور بالخصوص آریہ بھائی جو فی زماننا اہل قلم ہیں اور ملیچھوں سے انڈیا کو پاک صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ سے ناحق علاوہ مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کے باقی مسلمانوں پر بھی بدگمان ہوگئے۔ پھر اس پر بھی مرزاقادیانی کی پاک جماعت کے ممبران مارے فخر کے اپنے جاموں میں نہیں سماتے کہ ہمارے مرشد کی دعا سے آریہ قوم کا سرگروہ پنڈت ہلاک ہوا۔ اس ہلاکت کا ناحق زہر قاتل تو جو مسلمانوں کو ملا کہ ’’نانی خصم کرے اور نواسے چٹی بھریں‘‘ کہ ایک بہانہ ہزاروں پر بدظنیاں، اظہر من الشمس ہے اور مرزاقادیانی کی جو اس واقعہ سے نیک نامی ہوئی کہ موضع قادیان میں تھانے بیٹھے۔ معززوں کے پردہ دار گھروں کی تلاشیاں لی گئیں۔ اسلامیہ کالج لاہور کے ہر ایک کمرہ کی جستجو ہوئی۔ سو ایسی باتوں سے کچھ مرزاقادیانی کی جماعت کو ہی لطف آیا ہوگا۔ ورنہ اس قتل سے یا مرزاقادیانی کی پیشین گوئی سے مسلمانوں پر بڑی بڑی مصیبتیں نازل ہوئیں۔