ہے۔ جب تک اس کی قیمت میں جینا لکھا ہے۔
اگر درحیاتت نوشت است بہر
نہ مارت گزاید نہ شمشیر وزہر
راقم: مرزاقادیانی نے تو اپنے الہاموں میں پرلے درجہ کا زور دیا ہے کہ اگر اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے والا تاریخ عقد سے اڑھائی برس کے اندر اندر مر نہ جاوے تو پھر میری کسی بات پر اعتبار نہ کرو اور مجھ سے زیادہ کذاب ومفتری کسی کو نہ جانو وغیرہ۔
نوجوان: سنو صاحب! اگر اس لڑکی سے عقد کرنے والا کوئی غیرقوم کا آدمی ہوتا تو کیا مجال تھی کہ عقد کے پاس بھی بھٹکتا۔ بلکہ مرزاقادیانی سے خائف ہوکر عقد کا نام بھی زبان پر نہ لاتا۔ مگر ہم ٹھہرے ذات بھائی جو ایک دوسرے کی تہ سے بخوبی واقف ہیں اور آپس کی حکمت عملیوں کا خوب اندازہ کرنے والے ہیں۔ مرزاقادیانی واقعی ایک اچھے منشی ہیں اور پولیٹکل معاملات میں ان کے ذہن خداداد کو اس حد تک رسائی ہے کہ باید وشاید۔ مگر الہام کیا؟ مرزاقادیانی نے پہلے ہمارے بزرگ ’’مرزااحمد بیگ‘‘ کو خوب دھمکایا۔ پھر اپنے بڑے بیٹے اور ان کی والدہ کو اس کام پر آمادہ کیا۔ پھر چھوٹے بیٹے ’’مرزا فضل احمد‘‘ کے سسرال میں اپنی قلم کے لکھے ہوئے خطوط بھیجے کہ اگر اس لڑکی کے عقد میں میری مدد نہ کرو گے تو مرزافضل احمد تمہاری لڑکی کو چھوڑ دے گا اور اس میں تمہاری جگ ہنسائی ہوگی اور اگر فضل احمد اس کو طلاق نہ دے گا تو میں اس کو فرزندی سے عاق کر دوںگا۔ مگر ان دھمکیوں کی کسی نے ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کی اور مرزاقادیانی کو ہر طرف سے ناکامی ہوئی۔
راقم: ہم نے سنا تھا کہ اس کے علاوہ اور بھی قسما قسمی کوششیں ہوئی تھیں۔
نوجوان: یہ سچ ہے۔ میرے پاس مرزاقادیانی کے مریدوں کے جتھے بطور سفارت آئے اور کہا کہ تم نیک آدمی اور شریف زادے ہو اور مرزاغلام احمد قادیانی ایک ولی اﷲ اور کامل فقیر ہیں اور فقیر کے لنگ میں ہاتھ ڈالنا خوب نہیں۔ اس لڑکی کو علیحدہ کر دو اور ہم سے عہد لے لو کہ ہر طرح آپ کی مدد کریں گے اور کوئی اس سے بھی عمدہ ناتہ آپ کے لئے تجویز کر دیں گے۔ ورنہ یقین ہے کہ آپ سا حسین نوجوان مسلمان بھائی مسیح موعود وامام وقت کی بددعا سے مر جاوے گا۔
راقم: اس سفارت کا نتیجہ کیا ہوا؟
نوجوان: ہیچ! کیا کوئی بے موجب اور خلاف حکم خداورسول اپنی بیبیوں کو علیحدہ کر سکتا ہے؟ کون احمق ایسی دلفریب باتوں میں آتا ہے؟