گوئیوں کی طرح) اس پیشین گوئی کے پورا کرانے کے لئے بھی مرزاقادیانی نے حد سے زیادہ قلم وزبان کا زور لگایا اور جان توڑ کوششیں کیں۔ کسی بزرگ نے جو مرزاقادیانی کے حالات وتصانیف سے کامل واقف ہے۔ ایک مفصل کتاب موسوم بہ ’’کلمہ فضل رحمانی‘‘ (یہ کتاب بھی احتساب قادیانیت جلد بتیس میں چھپ چکی ہے) لکھی ہے اور اس میں ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی نے اس پیشین گوئی کے پورا کرانے میں ناخنوں تک کا زور لگایا اور آخر میں مرزاقادیانی کے قلم کے لکھے ہوئے خطوط اس میں درج کئے جو مذکورہ بالا لڑکی کے رشتہ داروں کے نام ہیں۔ وہ ہیں تو قابل دید مگر افسوس ہے کہ اس جگہ گنجائش نہیں۔
مرزاقادیانی کے الہام کے حساب سے اس جوان کی (فرضی) موت کے صرف چھ ماہ باقی رہے تھے کہ ایک بارات میں دوستوں کی مجبوری سے ہم کو گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے میزبانوں نے مہمانوں کی خاطرداری کے لئے جو احباب منتخب کئے تھے۔ ان میں اڑھائی سال کے اندر فرضی موت سے مرنے والا نوجوان (مرزاسلطان بیگ) بھی موجود تھا اور بوساطت ایک دوست کے نوجوان مذکور سے راقم کی ملاقات ہوئی۔ مجھے خیال تھا کہ وہ بیچارہ حیران وپریشان ہوگا۔ کیونکہ قانون قدرت کا یہ عام قاعدہ ہے کہ کسی شخص کو جان جانے کا خوف دلایا جاوے تو خواہ وہ کیسا ہی دلیر اور من چلا ہو۔ مگر فکر اور حیرانی ضرور لاحق ہوجاتی ہے اور اپنی جان کی حفاظت کے لئے طرح طرح کے اندیشوں اور خدشوں میں سرگردان رہتا ہے۔ ہزاروں مخلوق نے ایسے فکروں میں پڑ کر حفظ امن کی ضمانتیں اور مچلکے سرکاری عدالتوں میں کرائے ہیں۔ مگر نہیں؟ وہ نوجوان کچھ متفکر نہ تھا۔ بلکہ زیادہ ہشاش بشاش تھا۔ اس سے حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
راقم: سلام علیک!
نوجوان: وعلیکم السلام!
راقم: مزاج شریف۔
نوجوان: الحمدﷲ!
راقم: مجھے آپ کے دیکھنے سے بہت خوشی ہوئی۔ فرمائیے آپ ان دنوں حیران تو نہیں رہتے۔
نوجوان: کیوں جناب یہ کیسے ہیں تو خدا کی عنایت سے اچھا ہوں۔
راقم: خدا تعالیٰ آپ کو حوادث دوران وآسیب اخوان الزمان سے محفوظ رکھے۔ میں نے جناب غلام احمد کی کتابوں میں ایک پیش گوئی پڑھی۔ جو غالباً آپ کے بارے میں ہے۔
نوجوان: ہوں!بھلا یہ بھی کوئی حیرانی کی بات ہے۔؟ کیا کوئی شخص کسی کے کہنے سننے سے مرجاتا