تندرست موجود ہوں اور ان کی فضول پیشین گوئی سراسر نادرست ہے۔ تو اب یہ بات نکالی ہے سوائے اس کے اب میں ضعیف العمر آدمی ہوں۔ قریب ۶۸یا ۶۹ برس کی عمر ہے اور فرض کرو کہ میں اس پندرہ ماہ کی مدت میں مر بھی جاتا تو کیا عجب تھا۔ لیکن تو بھی خداتعالیٰ جل شانہ نے مجھے راضی اور تندرست رکھا ہے۔ آپ بہت مناسب کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی جیسے آدمی کے عقائد سے نفرت رکھتے ہیں۔ خداتعالیٰ اس پر رحم کرے اور اس دماغ کی بیماری سے اس کو بچاوے۔
آپ کا خیرخواہ عبداﷲ آتھم فیروز پور مورخہ ۲۱؍ستمبر ۱۸۹۴ء
آمدم برسر مطلب
پس ایسا رجوع بحق وہی شخص مان سکتا ہے اور اس سے اسی شخص کی اشک شوئی ہوسکتی ہے جو آنکھ کا کانا اور گانٹھ کا پورا ہو۔ ورنہ جو واقعات اس پیش گوئی کے متعلق اس دنیا نے مشاہدہ کئے ہیں۔ وہ روز روشن کی طرح سب کے سب آشکارا ہیں۔ اے وائے ایسے لنگڑے عذرات پر آخر اس بات کا بھی کوئی جواب دیا ہوتا؟ کہ مزعومہ موت کے ختم ہوتے ہی عیسائیوں نے ٹوٹی ہوئی جوتیوں کے ہار پرو کر بنام نامی حضرت مقدس مرزاقادیانی ایک سائیں کے زیب گلو کر کے اور اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار اور گجرانوالہ کی گلیوں میں اس کی تشہیر کی؟ شاید اپنی شکست مٹانے کے لئے ایسی ناشائستہ حرکات عمل میں لائی گئی ہوںگی۔
یاد رہے کہ اسلام کے چند آدمیوں کے اس میں سے نکل جانے پر صداقت اور حقانیت نہیں ہے۔ وہ ایک نور ہے وہ ایک دریتیم بے مثل ہے۔ وہ فی نفسہ پاک اور بے عیب ہے۔ اگر موجودہ مسلمانوں میں سے خوانخواستہ بہت سے اسے ترک بھی کر دیں تب بھی وہ ویسا ہی ہے۔ جیسا کہ ہے ؎اسلام بذات خود ندارد عیبے
ہر عیب کہ ہست در مسلمانی ماست
پھر اپنے حظوظ نفسانی کو مذہب کے پیرایہ میں ظاہر کر کے اشتہار دینا اور اس کا نام فتح اسلام رکھنا ہم نہیں جان سکتے کہ کیا معنی رکھتا ہے۔ ہمارے مخاطب مولوی صاحب جو مرزاقادیانی کی مداحی پر مرمٹے ہیں۔ اپنے خرافات میں ایک مقام پر جاہ وجلال میں آکر کہتے ہیں۔ ’’کہاں ہے اب عبداﷲ آتھم۔‘‘ ہم کہتے ہیں کہاں ہیں۔ مولوی صاحب کے بزرگ؟ ایک نہایت عجیب واقعہ اس موقعہ پر بندہ کو یاد آیا ہے۔