حکایت: ضلع ہزارہ کے صدر مقام ایبٹ آباد کے جیل خانہ میں سے ایک قیدی بھاگ گیا۔ جس دربان اور سنتری کی غفلت سے وہ قیدی بھاگا تھا۔ ان دونوں کا سرکاری عدالت میں چالان ہوا۔ اسی اثناء میں قیدی مذکور پھر پکڑا آیا۔ حاکم مجوز نے اخیر حکم یہ سنایا کہ دربان موقوف کیا جاوے۔ اس نے عرض کی کہ حضور انور میں ایک غریب آدمی ہوں۔ بال بچے دار اور پرانا نوکر ہوں اور اب تو قیدی مذکور بھی پکڑا آیا ہے۔ میرا قصور معاف کیا جاوے۔ حاکم مجوز نے جواب دیا کہ بھلے مانس اب جو قیدی پکڑا آیا ہے تو برٹش گورنمنٹ کے اقبال سے مگر تمہاری حراست سے تو بھاگ ہی گیا تھا۔ پھر تم معافی کے مستحق کیونکر ہو سکتے ہو؟
ہم بھی کہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے ہر ایک انسان کے جس قدر سانس لکھے ہیں۔ پورے کرے گا۔ ’’اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون‘‘
آتھم مرگیا ہے۔ بہت سے اور لوگ بھی سدھار گئے ہیں۔ ہر ایک صدی کے بعد نئی دنیا بدلتی ہے۔ پرانی صفیں لپیٹی جاتی ہیں۔ نئے قالیچے بچھائے جاتے ہیں۔ اتنی دنیا مرچکی ہے کہ ہمارے گمان اور وہم میں بھی نہیں آتی اور ہم تو جس دن پیدا ہوئے تھے۔ اسی روز ہم کو ازلی حکم سنایا گیا تھا کہ تم ضرور ہی مرو گے۔ مرزاقادیانی نے ہی کچھ آخرت کے بورئیے نہیں سمیٹے۔ ’’کل شیٔ ہالک الا وجہہ، کل نفس ذائقۃ الموت، ید رککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدہ‘‘ ہر روز ایک جہاں کے تجربے اور مشاہدے میں آرہے ہیں ؎
ہر آنکہ زاد بہ ناچار بایدش نوشید
زجام دھر مئے کل من علیہا فان
اگر ایک کانٹا جل جاوے ایک سانپ مر جاوے۔ ایک دشمن خدا ہلاک ہو جاوے تو اس سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ کیا کانٹوں کو جلنا ہے تو خوشنما اور خوبصورت پھولوں کا کملانا بہتر ہے؟ اگر دشمنان خدا کو جہنم کی آگ میں پڑنا ہے تو پرستندگان مخلص کو بہشت برین کی سیر کرنا ضرور ہے۔
جوانی وپیری بہ نزد اجل
یکے دان چودردین نخواہی خلل
ہاں اس سے زیادہ کوئی سچی بات نہیں ہوسکتی کہ جس تاریخ کو مرزاقادیانی کے الہام کی بموجب آتھم کی موت واقعہ ہوئی تھی اور جس کو مرزاقادیانی نے اپنے صدق وکذب کا معیار ٹھہرایا تھا وہ سراسر غلط نکلی۔ بلکہ میعاد مذکورہ بالا کے پہلے جس سوز وگداز اور خلوص دل سے خاص قادیان میں بعد نماز دعائے قنوت پڑھی جاتی تھی اور عبداﷲ آتھم کی موت کے لئے الحاح وزاری کی جاتی