میرا تیسرا ہمراہی: میاں صاحب اگر وہ نہ بھی مرا تب بھی دیگ ضرور پکوانا اور ﷲ مساکین اور فقراء کو بانٹنا۔
مرید: (جھلاّ کر) یہ کیسے؟
راقم: خدا کے اس احسان کے شکریہ میں کہ مرزاقادیانی امام وقت نہیں ہیں۔ جن کا کہنا ٹل گیا اور آپ کو حافظ حقیقی نے ایسے شخص سے نجات دی جو مفت کے دھوکے دیتا تھا۔
راوی: مسیح علیہ السلام کا جو مرزاقادیانی کے گھر میں اس شدومد میں اتنا طول طویل عرصہ تک ماتم رہا۔ تو ان کی فاتحہ خوانی کب کرائی گئی ہے۔ جواب دیگ پکوانے کی فکر ہو؟
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عیسائی ۱۵ماہ کے اندر مر گیا تھا یا نہیں؟ شاید تازہ مردہ تھا کہ بعد ہلاکت کے بھی ڈیڑھ سال بولتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے رجوع بحق کر لیا۔ یہ رجوع بحق کی ایک ہی کہی مولوی صاحب ہی بتاویں گے کہ کس شخص کے روبرو اس نے کلمۂ طیب پڑھ کر اپنے تثلیثی عقیدہ سے توبہ کی۔ کون سی اس کی دستخطی تحریر آپ کے پاس ہے۔ کس اخبار یا اشتہار میں اس کا رجوع نامہ شائع ہوا۔ سو نہ آپ نے اب تک کچھ بتایا اور نہ سوائے لنگڑے عذرات کے آئندہ کو آپ سے کچھ توقع ہوسکتی ہے۔ مگر ہم بتائے دیتے ہیں تاکہ ناظرین اخبار کو اس کا انتظار نہ رہے۔
(نقل خط محررہ عبداﷲ آتھم جو اخبار وفادار لاہور کے پرچہ ستمبر ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا تھا)
’’میں خدا کے فضل سے تندرست ہوں اور آپ کی توجہ ص۸۱،۸۲ مرزاقادیانی کی بنائی ہوئی کتاب ’’نزول مسیح‘‘ کی طرف دلاتا ہوں۔ جو میری نسبت اور دیگر صاحبان کی موت کی نسبت پیش گوئی ہے۔ اس سے شروع کر کے جو کچھ گزرا ہے۔ ان کو معلوم ہے۔ اب مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ آتھم نے اپنے دل میں چونکہ اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس لئے نہیں مرا۔ خیر ان کو اختیار ہے جو چاہیں سو تاویل کریں۔ کون کسی کو روک سکتا ہے۔ میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا۔ اب بھی عیسائی ہوں اور خدا کا شکر کرتا ہوں۔ جب میں امرتسر میں جلسۂ عیسائی بہائیوں میں شامل ہونے کے لئے آیا تھا۔ وہاں پہلے تو بعض اشخاص نے ظاہر کر دیا تھا کہ آتھم مرگیا ہے۔ نہیں آوے گا۔ جب مجھے ریلوے پلیٹ فارم پر دیکھا گیا تو یہ کہنے لگے کہ یہ آتھم کی شکل کا ربڑ بنا ہوا ہے۔ انگریز حکمت والے ہیں۔ ربڑ کے آدمی میں کل لگادی ہے۔ ایسی ایسی باتوں کا جواب خامشی ہے۔ میں راضی خوشی اور تندرست ہوں اور ویسے مرنا تو ایک دن ضروری ہے۔ زندگی اور موت صرف رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ اب میری عمر ۶۸سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیش گوئی کر سکتا ہے۔‘‘