گراز زندگانی نوشت است بہر
نہ مارت گزاید نہ شمشیر زہر
اور خیال کیا جوے کہ اگر ایک اسلام کا مخالف اس طرح پر مر بھی جاوے تو کون سی عجب بات ہے۔ پہلے بھی تو اسلام کے دشمنوں، گمراہوں، اور فاسقوں وغیرہ نے جوازلی طور پر اندھے بہرے اور گونگے تھے۔ اسلام کے مقابلہ میں کتابیں لکھیں اور درشت الفاظ لکھنے میں اپنے نامجات اعمال سیاہ کئے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی وقت آنے سے پہلے نہیں مرا۔ ہاں اگر عبداﷲ آتھم مذکور اس پندرہ ماہ کی میعاد مقررہ مرزاقادیانی کے اندر مرجاتا تو مرزاقادیانی کی چاندی ہی چاندی کیا بلکہ سونا ہی سونا تھا۔ جاہل خلقت کا جو پیر پرستی پر مرمٹی ہے۔ اس قدر مرزاقادیانی کے ہجوم اور انبوہ ہو جاتا کہ موضع قادیان کی سڑک ٹوٹ جاتی اور اس وقت خدا جانے کیسے کیسے فرعونی کام پیش آتے۔
اثناء میعاد میں جب ہم مرزاقادیانی کے فدائیوں سے پوچھتے کہ بھائی اگر آپ کو اس موت کی آخرکار کوئی تاویل کرنی ہو مثلاً اس کی روح مرگئی یا اس نے اسلام کے حق میں چونکہ برے الفاظ بکے تھے۔ اس لئے وہ مردہ ہوگیا ہے وغیرہ۔ تو ہمیں پہلے بتاؤ تو وہ ہماری باتوں سے لہولہان ہوکر اور نیلی پیلی آنکھیں نکال کر ہم سے یوں مخاطب ہوتے۔ استغفراﷲ! اگر وہ اسی ظاہری موت سے ۱۵ماہ کے اندر اندر نہ مرا تو امام وقت اور مسیح موعود کی پیش گوئی کا راست آنا کیسے؟
چنانچہ اس آخری مہلک دن میں جو درحقیقت مرزاقادیانی کی ہوسوں اور منصوبوں کے تباہ کرنے والا دن تھا۔ ہم چند آدمی مرزاقادیانی کے ایک مخلص مرید کے پاس ۴بجے شام کے گئے اور اس طرح آپس میں مکالمہ ہوا۔
میرا پہلا ساتھی: فرمائیے میاں صاحب! آپ کس شغل میں ہیں؟
مرید: یوں ہی بیٹھے ہیں۔
میرا دوسرا ہمراہی: کچھ حیران معلوم ہوتے ہو۔ کیا عبداﷲ آتھم کے مرنے کا کوئی تار خبر ابھی تک آیا یا نہیں؟
مرید: (اپنی گھڑی دیکھ کر) چار تو بج چکے ہیں۔ مگر کچھ مضائقہ نہیں۔ مرزاقادیانی کا یہی الہام ہے کہ آج کے دن کو خداوند تعالیٰ لمبا کر دے گا۔ جب تک آتھم مر نہ جاوے۔ زمین وآسمان ٹل جاویں۔ مگر امام وقت کا فرمودہ ٹل نہیں سکتا۔ میں نے مساکین اور فقراء کے کھلانے کے لئے کھانے وغیرہ کا سب سامان تیار کر رکھا ہے۔ تار خبر آتے ہی دیگ چولہے پر رکھوا دوں گا۔