من نگوئم کہ ایں مکن آن کن
مصلحت بیں وکار آسان کن
۸… آپ کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ جس وقت کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی جارہی تھی۔ اس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنی کانشنس کے مطابق مرزاقادیانی کی حمایت میں لکھا اور اس کے بعد کی تحریریں ان کے قلم سے نکلی ہوئی ضد وحسد پر مبنی ہیں۔
حضرت عاجگر صاحب مجھے آخر یہی کہنا پڑا ؎
چوبشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نۂ دلبرا خطا اینجا است
کیا آپ نے حضرت سعدیؒ کا یہ قطعہ نہیں پڑھا۔
توآں شناخت بیک روز از شمائل مرد
کہ تاکجاش رسیدہ است پائگا ہے علوم
ولے زباطنش ایمن مباش وغرّہ مشو
کہ خبث نفس نگردد بسالہا معلوم
کیا رائے لگانے میں جلدی کرنے والا خطا میں نہیں پھنستا؟ کیا آپ نے نہیں سنا؟
Judge nothing before the time.
اوائل میں ایک شخص کا کسی کی ظاہری شکل وشباہت دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوجانا، ناتجربہ کاری کی دلیل ہوتا ہے۔ مگر اصلی اور حتمی رائے وہی ہوتی ہے جو بمرور عرصۂ دراز اور تجارب ومشاہدات بیشمار کے ساتھ ہو۔ کس کو اس بات کا علم تھا کہ جو پٹڑیاں براہین احمدیہ میں جمائی گئی تھیں ان کے آج کل اپنی نبوت کے ثبوت میں حوالے دئیے جائیں گے۔ بقول شخصے
وہی چور اور وہی چور کا گھر
جناب مرزاقادیانی مسیح موعود بن کر ایک اسلامی دنیا کو جہنمی بتائیں گے۔۹… آخیر پر عاجگر صاحب یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’انا الحق‘‘ کہنے والوں نے قرب الٰہی کے مدارج کو پالیا اور ’’انا المسیح‘‘ نے دجالی اعزاز حاصل کیا۔ اس کا صرف اسی قدر جواب ہے کہ عقل سلیم سے دونوں شقیں بعید ہیں۔ ہم نہ جماعت اوّل کے حامی ٔ کار ہیں۔ نہ دوسرے کے مددگار۔
امید ہے کہ اگر ہم سے کسی قسم کی گستاخی اس تحریر میں ہوگئی ہو تو ہمارے رفیق غائبانہ جناب عاجگر صاحب معاف فرماویں گے۔ (امام الدین گجراتی)