کی ہمہ دانی کی بنیاد صرف لفاظیوں کی زبانی جمع خرچ تک ہی محدود تھی اور وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کا مادہ نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور اس کے جواب میں مباحثہ کی درخواست کی۔ جس میں یہ چال آمیز شرط تھی کہ اس مباحثہ کے حکم دہی محمد حسین ہوں۔ یعنی اگر وہ کہہ دیں کہ پیر صاحب غالب رہے تو اسی وقت لازم ہو گا کہ مرزاقادیانی توبہ کر کے پیر صاحب کی بیعت میں داخل ہو جاویں۔ پھر بالمقابل تفسیر بھی لکھیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس طرح کے جواب میں کیسی چال بازی سے کام لیا ہے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ شرائط منظور کر لیں مگر تفسیر لکھنے کے امر کو ایک مکر سے ٹال کر مباحثہ پر حصر رکھا ہے اور ساتھ ہی بیعت اور توبہ کی شرط جڑ دی ہے۔ افسوس ہے کہ پیر صاحب کی اس چال بازی پر پردہ ڈال ڈال کر ارادتاً پوشیدہ کیا جاتا ہے۔ جب کہ مباحثہ میں مغلوب ہونے کی حالت میں جو صرف محمد حسین صاحب کے کہنے سے سمجھی جائے گی۔ مرزاقادیانی کو بیعت کرنے کا قطعی حکم ہے۔ جس کے بعد ان کا کوئی عذر سنا نہ جائے گا تو پھر تفسیر لکھنے کے لئے کون سا موقعہ باقی رکھا گیا ہے اور کس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شرائط منظور کر لیں۔ گویا اس معاملہ میں پیر صاحب خود ہی فریق مقدمہ اور آپ ہی منصف بن گئے ہیں۔ کیونکہ جب کہ مولوی محمد حسین صاحب کے عقائد متنازعہ فیہ بالکل پیر صاحب کے مطابق ہیں اور دونوں ایک ہی سانچے کے ڈھلے ہوئے ہیں تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ مولوی محمد حسین اور پیر صاحب گویا ایک ہی شخص ہیں۔ دو نہیں تو پھر فیصلہ ہی کیا ہوا۔
انہیں فریبوں سے علیحدگی حاصل کرنے کے لئے تفسیر لکھنے کا طریقہ پیش کیاگیا تھا۔ جو چالبازی سے ٹال دیا گیا ہے۔ جس پر میاں مبصر صاحب کھڑ پینچ بن کر منصفانہ رائے دیتے ہیں کہ پیر صاحب کا ایسا کرنا عین موقعہ اور محل پر تھا۔ کیا یہی انصاف ہے اور یہی اس کا موقع اور محل ہے۔ بقول میاں مبصر صاحب جو شخص مثل موش (چوہا) اپنے گھر میں جگہ لیتا ہے۔ اس کی طرف سے پیر صاحب کے دل پر ایسا دھڑکہ کیوں شروع ہوگیا ہے کہ ایک دم کے لئے نہیں ٹھہر سکتے ہیں اور اس چڑیا کی طرح سے جوباز کے ڈر سے چوہے کے سوراخ میں گھس جاتی ہے۔ کیوں دل پر ہیبت طاری ہوگئی ہے کہ ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں اور حیلے بہانے تراشتے ہیں۔ وہ خوب طرح سے سمجھتے ہیں کہ جس وقت میں تفسیر لکھنے کے لئے مقابلہ میں آیا۔ سارے روحانی فیوض وبرکات کے بخیئے ادھڑ جائیں گے اور مسلم الثبوت ڈگری اور فاضل اجل اور عالم بے بدل بنا اس طرح اڑ جائے گا۔ جس طرح آگ لگ جانے سے سارا بارود خانہ اڑ جاتا ہے۔ کلام الٰہی کی تفسیر لکھنے اور مواج دریا کے مقابلہ میں آنے کے لئے کچھ تو تمیز علمی اور بصارت چاہئے۔ میاں مبصر صاحب کو