… آپ مجھے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا ہم خیال اور ان پر حسن عقیدت رکھنے والا تحریر فرماتے ہیں۔ لیکن صاف صاف عرض کر چکا ہوں کہ نہ ان کا مرید ہوں، نہ ہم خیال، نہ اپنے عقائد ان کے سامنے پیش کئے۔ نہ ان کے سنے۔ ہاں البتہ ان بزرگان دین کے ساتھ جو خداتعالیٰ کو ایک مانتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ کو رسول برحق، قران مجید کو کلام الٰہی مانتے ہیں۔ بلاشبہ میری حسن عقیدت ہے اور جناب پیر صاحبؒ پر بالخصوص اس لئے کہ انہوں نے کسی قسم کا جھوٹا دعویٔ نبوت وغیرہ نہیں کیا۔ وہ مرنجاں مرنج ہیں۔ لوگوں کو نیک ہدایت کی تلقین کرتے ہیں۔ جنگی سپاہی تیار نہیں کرتے کہ ان کی صحبت سے علیحدہ ہوتے ہی ہر ایک کے ساتھ برسر پرخاش آویں۔ مسلمانوں میں وہ (پیر صاحبؒ) مسلمہ بزرگ قوم اور ایک بڑی جماعت کے پیشرو ہیں۔ ان کی زبان مبارک سے کبھی بزرگان اسلام سلف وخلف کے حق میں سب وشتم نہیں سنی گئیں۔ جیسے کہ آج کل کے مصنوعی پیغمبروں ان کے صلاح کاروں اور فدائیوں کا شیوہ ہے۔
۶… آپ نے اپنے لاثانی آرٹیکل کے اکثر فقروں میں حضرت آدم، موسی، نوح علیہم السلام اور حضرت محمدﷺ کی تکالیف کا ذکر کر کے مرزاقادیانی کو بھی اسی سانچا میں ڈھالنا چاہا ہے۔ سوجناب عاجگر صاحب اگر آپ بھی فی الحقیقت مرزاقادیانی کی نبوت کا لوہا مان چکے ہیں تو سب حرف سرائی فضول ہے۔ ورنہ ایک معمولی شخص کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں شامل کر کے ’’خاسر الدنیا والآخرۃ‘‘ بننا کون سی عقلمندی کی بات ہے۔ کیا ایسا شیوہ اختیار کرنا شرک فی النبوت کے مصداق بننے میں داخل نہیں ہے۔
۷… حضرت عاجگر صاحب نے تقلید اور تعصب کی بیجا قید سے آزادی حاصل نہ کرنے اور عقل سلیم سے کام نہ لینے پر کافتہ المسلمین پر افسوس کیا ہے۔ سو جناب عالی ہمارا بھی اس پر اتفاق ہے۔ بشرطیکہ آپ ’’لم تقولون مالا تفعلون‘‘ پر بھی عملدرآمد رکھیں۔ واقعی کسی ادعائی شخص کے کہنے سننے پر بلا سوچے سمجھے مذہب اسلام سے فارغ خطی حاصل کرنا کس عقل سلیم کا نتیجہ ہے اور حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے بعد جن کی شان میں ہے۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (الاحزاب:۴۰)‘‘
کسی دوسرے نبی یا رسول کی آرزو میں غلطاں اور پیچاں رہنا کس لب کا عندیہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے سواء دینی امورات میں کس کو حق ہے جو یہ کہے کہ جو میں کہتا ہوں (دین کے بارہ میں) وہ کرو اور ایسا کرنا تقلید کے دام سے نکلنا ہے۔ یا الٹے اس کی آہنی زنجیروں میں جکڑا جانا۔ بیت