اور ان میں بزرگان اسلام زمانہ سلف وخلف کی شان میں سب وشتم بھری پڑی ہیں۔ پھر ان بزرگان کے اسماء گرامی جن کو آپ نے اپنے مضمون کے پہلے کالم میں گنوایا ہے۔ یعنی سرسید مرحوم، مولانا شہید مرحوم، حافظ مولانا نذیر حسین، اگر عوام نے ان کے شان میں برابھلا بکا تو اس نادانی پر چنداں افسوس نہیں ہے۔ کیونکہ سطحی خیالات کے لوگوں کا ایسا ہی حال ہوا کرتا ہے۔ مگر جب ایک شخص جو اتنے بڑے دعاوی کرتا ہے۔ جن کو پڑھ سن کر ایک سلیم العقل انسان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صاف صاف الفاظ میں اوّل الذکر کو دہریہ، ملحد، نجاست خوروں کے لئے نجاست تیار کرنے والا وغیرہ الفاظ کہہ اٹھے۔ (دیکھو مرزاقادیانی کی کتاب آئینہ کمالات کا خط بنام سید احمد خان) اور ثانی الذکر (مولانا شہیدؒ) کو معاذ اﷲ کور باطن، نبی سے بغض رکھنے والا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۶۲۲، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اور ثالث الذکر کو ہامان اور جہنم کا خطاب تجویز کرے۔ (اشتہار مرزاقادیانی قتل لیکھرام) تو خدارا آپ سچ بتادیں کہ اس کو کیا کہو گے؟ کیا قرآن شریف کی آیت ’’ولا تسبو الذین یدعون من دون اﷲ فیسبو اﷲ عدوا بغیر علم (الانعام:۱۰۸)‘‘ کی تعمیل یہی ہے۔ جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اس کا انصاف بھی میں اس وقت آپ ہی پر چھوڑتا ہوں۔
۴… آپ نے مجھ ناچیز پر گندم نما جو فروشی کا الزام لگایا ہے۔ میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے شائستہ الفاظ کس تجربہ اور مشاہدہ نے آپ کی پاک زبان سے نکلوائے۔ ’’کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ان یقولون الا کذبا‘‘
حضرات! نہ میں نے کبھی کذب ودروغ گوئی، افتراء پردازی، اور مکروفریب کی دوکان نکالی اور نہ کسی قسم کا گدّوں اپنے گلے میں ڈال کر دنیا کو دغابازی سے لوٹنے کی کوشش کی۔ نہ بجز انسان گنہگار ہونے کے کسی قسم کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ میں تو اپنے اباؤاجداد سے ایک ملازمت پیشہ شخص ہوں۔ مجھے ایسی دنیا اور دین سے آدمی کو برباد کرنے والی تجارت سے کیا سروکار؟ یہ سوداگری انہیں لوگوں کو مبارک رہے۔ جو اس طرح کے حلال پیشہ سے زر وصول کر کے یاقوتیاں وغیرہ استعمال میں لاتے ہیں اور بادام روغن، دم کئے ہوئے پلاؤ چٹ کرتے ہیں۔
کیا یہ دنیا بھر میں دیکھا نہیں جاتا کہ جس قسم کا تجربہ اور مشاہدہ کسی کو ہو۔ ایمانداری سے راست راست بیان کیا جائے۔ کیا کوئی حاکم ہے کہ فریقین کے مقدمہ کا فیصلہ کرتے وقت ایک فریق کو ڈگری بھی دے اور ڈس مس بھی کرے۔ بلکہ جو فریق اس کے نزدیک راستی پر ہو۔ اس کی حمایت کرنا اس کا اصول اور عین فرض ہونا چاہئے۔