یہ واقعی سچ ہے وہ بالکل خطا اور نادانی پر ہیں اور اگر ان کو مفسدین فی الارض کہا جاوے تو عین زیبا ہے۔ مگر بھائی صاحب کیا مرزائی قادیانی کو بھی آپ عام لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ جس نے پہلے تو اپنے تئیں مجدد کا خطاب دیا۔ پھر الفاظ ’’علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ اپنے پر کہلوانے شروع کئے۔ جو خاص رسولوں کے واسطے مخصوص اور محفوظ چلے آئے ہیں۔ پھر مسیح موعود اور مہدی موعود کا دعویٰ کیا۔ پھر اپنی کتابوں کے سرورقوں پر صاف صاف مرسل یزدانی لکھنے لکھانے لگے اور بالآخر سب انبیاء علیم السلام کا لب لباب اپنے تئیں مشہور کر دیا اور لکھ دیا کہ جو شخص میری جماعت سے الگ رہے گا۔ کاٹا جاوے گا۔ یعنی جہنم کی آگ میں ڈالا جاوے گا اور جس کے شان میں ان کے ایک حواری یا چیلے کا یہ مقولہ ہے کہ جب خادم (مرزاقادیانی) اور مخدوم (حضرت محمد الرسول اﷲﷺ) ایک سے حربے اور ہتھیار لے آئے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے۔ (اخبار الحکم)
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ معاذ اﷲ مرزاقادیانی اور رسول کریمﷺ میں مابہ الامتیاز کچھ بھی نہیں ہے۔
کیا اس قسم کے اصول فروعی اختلافات ہیں؟ آپ کے خیال میں بندہ اگر ان چند سطورکے لکھنے پر کشتنی، سوختنی اور گردن زدنی ہے تو حالاانصافم بررائے روشن شما است بیت ؎
آج اٹھیں گے فیصلہ کر کے
یا خفا ہو کے یا خفا کر کے
۳… حضرت عاجگر صاحب فرماتے ہیں: ’’کوئی محقق کسی اہم اور پیچیدہ مسئلہ کے حل کرنے کی طرف توجہ کرتا ہے تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ الخ!‘‘
صاحب من! اگر اس قسم کی تحقیقات سے آپ کی مراد زمانہ حال میں سرسید احمد خان مرحوم یا مولانا شہیدؒ وغیر ہم سے ہے۔ تو اٰمنا وصدقنا، دل ماشاد چشم ماروشن۔ انہوں نے ایسی تحقیقاتیں کیں کہ بس قلم کو توڑ دیا۔ مگر مرزاقادیانی کو خواہ آپ ملہم مانیں یا رسول جانیں۔ آپ کا اختیار ہے۔ مگر محقق آج تک اس کو نہ کسی نے کہا ہے۔ نہ آئندہ کہے گا۔
کہ ایں شیوہ ختم است بر دیگراں
کیونکہ ان کا واسطہ بقول ان کے براہ راست خدا کے ساتھ ہے اور بقول کافتہ المسلمین… کے ساتھ، کیا آپ ان کی تصانیف میں سے کوئی ایسی کتاب دکھا سکتے ہیں۔ جس پر تحقیق کا لفظ صادق آسکے؟ بلکہ سب کی سب بقول سرسید مرحوم نہ دین کے کام کی ہیں نہ دنیا کے کام کی۔