اور خدا بہشت بریں نصیب کرے۔ مولانا مولوی غلام دستگیر قصوری کو جنہوں نے مرزاقادیانی کی ابتدائی تصانیف دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ شخص (مرزاقادیانی) پیغمبری کا دعویٰ کرے گا۔ مگر افسوس ہے کہ عوام نے جن کی ذات میں بھیڑکی چال پائی جاتی ہے۔ عموماً اور مسلمانان اہل حدیث نے جن میں سے اکثر بھولے بھالے ہوتے ہیں۔ خصوصاً اس رائے مرحوم ومغفورمولوی صاحب پر توجہ نہ کی اور اگر کی تو بہت کم۔ بلکہ اس جماعت کا شاید ہی کوئی ممبر باقی رہ گیا ہو۔ جو ایک یا دو بار مرزاقادیانی کو قادیان میں جاکر دیکھ نہ آیا ہو۔ اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فریب میں آکر جو غضب ڈھایا۔ یعنی چار متواتر آرٹیکل اپنے رسالہ ’’اشاعت السنہ‘‘ میں لکھے۔ جو نہایت ہی طول طویل تھے اور جن میں انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ یہ شخص ولی اﷲ ہے، غوث ہے، قطب ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی جو فرش زمین پر جوتیاں رگڑ رہے تھے۔ عرش بریں کی سیر کرنے لگے اور ان خوشامدی اور فرمائشی آرٹیکلوں نے ان کو اس طرح کا جوش دلایا کہ وہ اپنی اضغاث احلام کا نام الہام رکھنے لگے اور آخر الامر اس امر کا دعویٰ کیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور میری سب پیش گوئیاں راست اور درست پڑتی ہیں اور پڑیں گی۔ انہیں ایام میں چند ایک پردار مچھلیاں اور سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں بھی ان کے دام میں آچکی تھیں۔ اب اہل الرائے جان سکتے ہیں کہ زردار اور پردار کے سامنے بے زر اور بے پر کی کیا حقیقت ہے۔ پس بیچارے مولوی محمد حسین کی ان کے سامنے کب دال گل سکتی تھی۔ اسے دہتّا بتایا گیا۔ بیچارے مولوی نے جس کی یہ حالت تھی کہ خود کردہ راچہ علاج۔ ایسے فرعونی دعویٰ دیکھ کر بامر مجبوری وناچاری مرزاقادیانی کے عقائد باطلہ کی ایک فہرست مرزاقادیانی کی تصانیف سے نکال کر تیار کی اور علماء وقت اہل اسلام سے اس پر فتاوے طلب کئے۔ جنہوں نے صاف صاف بے روورعایت لکھ دیا کہ اس طرح کے دعاوی کرنے والا اور عقائد باطلہ رکھنے والا شخص جیسے کہ مرزاقادیانی کے ہیں۔ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ بلکہ ایک اسلامی دنیا کو ضلالت اور کفر میں ڈالنے والا ہے۔
غرض مرزامذکور نے لوگوں کو اپنی طرف سے بیزار ہوتے اور جماعت حمقاء کو ساتھ چھوڑتے دیکھ کر جابجا اشتہارات دینے شروع کئے کہ جس کا جی چاہے مباحثہ کر لے۔ مگر تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی پہلے تو لوگوں کو بڑے زور وشور سے مباحثہ اور مباہلہ کے لئے بلاتے ہیں۔ مگر جب ان کے حریف مقابل اور مبازر کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں مقابلہ کے لئے آتے ہیں تو مرزاقادیانی کے اوسان خطا ہو جایا کرتے ہیں اور مثل موش (چوہا) اپنے گھر کی