مریدوں نے اس شکست سے برا فروختہ ہو کر ان کے برخلاف ناشائستہ اور گالیوں سے بھرے ہوئے اشتہارات شائع کئے۔ بلکہ ایک مرید خاص نے بڑی بددلی وناانصافی سے پیر صاحب کی ذات مبارک پر نازیبا حملے کئے اور اپنی بدزبانی کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ گو پیر صاحب نے ان ہرزہ سرائیوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کی۔ کیونکہ ان کی ذات ان کمینہ حملوں سے متبرہ تھی۔ مگر عام مسلمانوں کے دل اس بدزبانی سے جل گئے۔ کیونکہ حضرت پیر صاحب کو جو بزرگی وشان اﷲ نے عطاء کی ہے اور جو عزت وتوقیر ان کی عام مسلمانوں کے دلوں میں ہے۔ وہ مرزاقادیانی کو نصیب نہیں ہوسکتی۔ نہ صرف وہ سید القوم وآل رسول ہیں۔ بلکہ عارف باﷲ وفخر العلماء ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ وہ ہماری قوم کے روحانی طبیب ہیں۔ جن کے فیوض باطنی وبرکات سے ہزارہا مسلمان مستفیض ہو رہے ہیں۔ پھر باوجود اس کشف وکرامات کے انہوں نے نہ کبھی خدائی کونسل کی ممبری کا دعویٰ کیا نہ کسی کلمہ گو کے حق میں ناشائستہ الفاظ لکھے۔
مرزاقادیانی کے مرید مذکور نے اس سلسلہ میں مرحوم ومغفور سرسید کو بھی کوسا۔ جس پر ہمارے مخدوم مولوی امام الدین صاحب نے اس بیہودہ گوئی کے جواب میں قلم اٹھایا۔
یہ خط وکتابت جو مولوی امام الدین صاحب اور مریدان مرزاقادیانی کے درمیان ہوئی۔ اتفاقیہ طور پر اس کا سلسلہ ہمارے اخبار میں شروع ہوگیا اور ہم نے فریقین کی تحریروں کو (اخبار) ’’چودھویں صدی‘‘ میں جگہ دی۔ لیکن یہ سلسلہ غیر متناہی مجبوراً روکنا پڑا۔ تاکہ اخبار کو مذہبی دنگل نہ بنایا جائے۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ ناظرین اخبار کو اس ساری خط وکتابت سے عموماً اور مولوی امام الدین صاحب کے آخری جواب سے خصوصاً کچھ ایسی دلچسپی ہوئی کہ بہت سے خطوط دوستوں اور بزرگوں کی طرف سے ہمارے پاس موصول ہوئے کہ اوّل تو آپ اس سلسلہ خط وکتابت کو جاری رکھیں۔ ورنہ جس قدر مضامین نکل چکے ہیں۔ ان کو اخبار سے نکال کر الگ چھاپ دیں۔ چنانچہ مجبوراً ہم کو ان بزرگوں کے ارشاد کی تعمیل کرنی پڑی۔
فریقین کی تحریروں پر ہم نے اپنی طرف سے کوئی ریمارک یافٹ نوٹ نہیں دیا۔ ہمارے خیال میں مولوی عبدالکریم (قادیانی) اگر آنریبل ڈاکٹر سرسید احمد خان کی شان میں ایسے برے الفاظ نہ لکھتے اور سب وشتم سے یاد نہ کرتے تو مولوی امام الدین کو اس قدر طول طویل جواب لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
مولوی امام الدین پر جو مرزاقادیانی کے مریدوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ وہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کے معتقد اور مرید ہیں۔ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ بلکہ جہاں تک ہمارا علم