تادلے مردے نمی آید بدرد
ہیچ قومے را خدا رسوا نکرد
حلم حق باتو مواسا ہاکند
چونکہ از حد بگذرد رسوا کند
چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی اس کتاب میں جو عبداﷲ آتھم والی پیشین گوئی کے غلط ہونے پر لکھی تھی اور جس کا نام مرزاقادیانی نے ’’انجام آتھم‘‘ رکھا تھا۔ اس میں ہر ایک مولوی سجادہ نشین بزرگ کو ہر درجہ کی مغلّظ سب وشتم سے یاد کیا تو حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ بھی جو ایک کامل اور ولی اﷲ اکمل ہیں اور موضع گولڑہ شریف کے رہنے والے ہیں۔ مرزاقادیانی کے ہاتھ سے نہ بچ سکے۔
مگر پیر صاحب موصوف کو جس طرح پر کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے برگزیدگان میں رکھ کر علوم باطنیہ اور رموز حقہ سے نہال کیا ہے۔ ایسا ہی اس واہب العطایانے ظاہری علوم شریعت غرّاء نبویﷺ سے بھی ان کو اپنے فضل وکرم سے مالا مال کیا ہے۔ جیسے کہ فی زماننا وہ تاج العرفاء ہیں ویسے ہی افضل العلماء ہیں۔
القصہ پیر صاحب موصوف سے مرزاقادیانی کی ایسی ایسی حرکات مذمومہ دیکھ کر نہ رہا گیا اور انہوں نے قصد مصمم کر لیا کہ اس سحر قادیانی کو جو اکثر مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث ہورہا ہے۔ توڑنا ہی مناسب ہے۔ چنانچہ گذشتہ سال پہلے انہوں نے مرزاقادیانی کے خیالات کی تردید میں ایک زبردست کتاب لکھ کر شائع کی۔ جو مسلمانوں میں مقبول عام ہوئی۔ جس کے بعد مرزاقادیانی نے پیر صاحب سے مباحثہ کرنے کا اشتہار دیا اور کئی ایک شرائط مباحثہ قرار دیں۔ جس کے جواب میں حضرت پیر صاحب نے جملہ شرائط پیش کردہ مرزاقادیانی کو منظور کر کے مطبوعہ اعلان دیا کہ آپ دارالسلطنت لاہور میں تشریف لاویں اور بالمقابل احقاق حق اور ابطال باطل کا تحریر وتقریر وتفسیر سے فیصلہ کر لیں۔
حضرت پیر صاحب مقررہ تاریخ ووقت پر لاہور تشریف لے گئے۔ مگر مرزاقادیانی نے ہر گز ہرگز موضع قادیان اپنے گاؤں سے قدم باہر نہیں نکالا۔ ناچار ایک ہفتہ کے قریب انتظار کے بعد پیر صاحب موصوف واپس تشریف لائے اور کافتہ المسلمین کو اس للّٰہی خدمت سے ہمیشہ کے لئے اپنا ممنون احسان اور مرہون منت فرماگئے۔ مرزاقادیانی نے شاید صرف چکمہ دیا تھا۔ مگر پیر صاحب نے اس طلسم کو توڑ دیا۔ حضرت پیر صاحب کی واپسی کے بعد مرزاقادیانی کے بعض