آمادہ ہو گئے۔ ہمارے معصوم نبیوں کی شان میں ناپاک ودل آزار کلمات کہہ کر اپنے جوش غصہ کا انتقام لیا۔ کچھ عرصہ کے بعد مرزاقادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس سے تو ہم کو کچھ بحث نہیں ہے کہ ان کا یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے۔ مگر نہایت افسوس وحسرت کا مقام ہے کہ اس وقت انہوں نے عام طور پر مسلمانوں کے سامنے اپنے دعاوی مسیح موعود پیش کرتے وقت ان لوگوں کو جو ان کی پیروی نہیں کرتے تھے۔ سخت ناملائم الفاظ سے مخاطب کیا۔ بلکہ یہ کہ ڈنڈا سے اپنے دعویٰ کی تصدیق کرانی چاہی، کہ جو لوگ میری پیروی نہیں کریں گے وہ ذلیل وخوار ہوںگے۔ ان کی گردنیں کاٹی جائیں گی۔ ان پر ذلت کی ماریں ہوں گی۔ غرضیکہ اسی قسم کے لعن طعن سے مخاطب کر کے عام مسلمانوں کو ناراض کیا۔
پھر اس پر بھی صبر نہ کیا اور علماء اسلام کو جو محافظ دین اسلام ووارث انبیاء علیہم السلام بلکہ ستون مذہب ہیں۔ اسی روش پر مخاطب کر کے ان کی توہین شروع کی اور نہایت عامیانہ وناسزا کلمات سے ان کو یاد کیا۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے؟ جب کہ اسلام، مشرکین اور کفار کے حق میں بھی ایسے کلمات کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ چہ جائیکہ اس گروہ کے حق میں جو ازروئے مذہب واجب العزت وتعظیم ہے۔ ایسے کلمات کہے جائیں اور ایسے بزگ کی زبان مبارک سے نکلیں جس کو مسیح موعود ومہدی مسعود ہونے کا فخر اور مجددوقت ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف اخلاق سے بعید بلکہ اصول اسلام کے برخلاف ہے اور ہر گز ہرگز ایسے عظیم الشان بزرگ (جیسے کہ مرزاقادیانی ہیں) کی شان کے شایاں نہیں تھا۔
ان سب سے بڑھ کر مرزاقادیانی نے جو غضب ڈھایا، اور جس سے کافتہ المسلمین کو سخت صدمہ پہنچا، اور ان کے دلوں پر ہولناک چوٹ لگی۔ وہ یہ ہے کہ حضرات صوفیاء کرام اہل اسلام جو نہایت ہی بے آزار دنیا اور اس کے دھندوں سے آزاد اپنے دشمنوں پر بھی رحم کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ کسی کو اپنا دشمن اور مخالف گردانتے ہی نہیں اور جن کا یہ مقولہ ہوا کرتا ہے۔از خدا دان خلاف دشمن ودوست
دل ہر دودر تصرف اوست
کے حق میں تو نہایت ظالمانہ کارروائی کی۔ ان کو کوسنا شروع کیا اور ایسے ایسے ناپاک کلمات سے ان کو مخاطب کیا کہ فی الواقع وہ وقت آگیا۔ جب کہ خداوند تعالیٰ کا حلم غضب سے بدل جاوے، اور اس بے آزار گروہ کی دل آزاری رسوائی اور ذلت کا باعث ہو جاوے۔ کیا ہی سچ کہا ہے۔ لسان صدق مولانا رومؒ نے: