دیباچہ
اس حکیم قادر علی الاطلاق کے بیشمار احسانوں میں سے جس نے ہم مسلمانوں کو قرآن مجید جیسی پاک کتاب، اور حضرت محمد رسول اﷲﷺ جیسا پیغمبر عطاء فرما کر خیر امت کا شرف بخشا۔ ہر ایک فرقہ، جماعت کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے، اور ہر ایک شخص نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار ہی کر سکتا ہے، بلکہ نہایت آزادی سے ان خیالات کو خواہ سچے ہوں یا جھوٹے، تقریروں اور لیکچروں کے ذریعہ عام جلسوں اور پبلک کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے ابھی تھوڑا عرصہ گزارا کہ اپنے دعاوی کی ابتداء مجددیت سے شروع کی اور لوگوں کے سامنے اپنے دعاوی کے دلائل وبراہین پیش کئے۔ اس لئے اس بھاری فرض اسلام کے مدعی ہونے پر مرزاغلام احمد قادیانی کو لازم تھا کہ وہی طریق اور طرز عمل اختیار کرتے جو ایک مجدد الوقت کو اختیار کرنے ضروری ہیں۔ یعنی نہایت متانت اور تہذیب سے اسلام کی حقانیت اور فیوض وبرکات مخالفین اسلام پر ظاہر فرماتے اور جیسا کہ مذہب اسلام کا دعویٰ ہے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ پیش کرتے وقت ایسا نرم اور دلآویز طریقہ اختیار کرتے کہ اگر مخالفین اسلام دائرۂ اسلام میں داخل نہ ہو کر برکات اسلام سے مستفیض نہ بھی ہوتے تو اس طرز بیان سے حقیقت مذہب کا اثر ضرور ان کے دلوں پر ہوتا اور کبھی مخالفت وتضحیک پر آمادہ نہ ہوتے۔ کیونکہ قرآن کریم نے وعظ وتذکیر کا یہی طریقہ تعلیم کیا ہے اور فرمایا ہے: ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن (النحل:۱۲۵)‘‘
اور پھر اگر اس مرنجاں مرنج روش سے بھی اسلام کی بدولت مخالفین کی طرف سے تکالیف پیش آتیں تو ان پر بھی صبر کرنا لازم تھا۔ چنانچہ ’’واصبر وما صبرک الا باﷲ (النحل:۱۲۷)‘‘ کی سی بیشمار آیتیں اس کے متعلق آچکی ہیں۔ کیونکہ مجدد وقت کو ہمیشہ ابتداء دعویٰ میں نہ صرف مخالفین مذہب بلکہ اپنے ہم مذہبوں سے بھی طرح طرح کی تکالیف دی جاتی ہیں۔ توہین کی جاتی ہے۔ مگر جو شخص اس اہم فرض کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی ان پریشانیوں سے نہیں گھبراتا اور ہمیشہ صبر وتحمل سے کام لے کر اپنے دعویٰ اور فرض پر ثابت قدم رہتا ہے۔
مگر افسوس سے ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے مشن میں ایک بے ڈھب سا طریقہ اختیار کیا، اور مخالفین کو ایسے درشت الفاظ سے مخاطب کیا، کہ جس سے انہوں نے اشتعال اور غضب میں آکر مقدس مذہب اسلام پر حملے شروع کئے اور دشمن اسلام ہو کر توہین پر