اجازت نہیں
چنانچہ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنایا گیا اور ’’المبشر‘‘ نام سے قادیان سے ایک رسالہ نکلتا ہے۔ جس کے اڈیٹر ایک مشہور قادیانی صحافی تھے۔ خلیفۂ قادیان کے نزدیک بعض نقائص اور عیوب ایسے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے ’’المبشر‘‘ کو مرکز سلسلہ سے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔ (الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۳۷ئ)
’’اسی طرح اعلان کیا گیا کہ کتاب ’’بیان المجاہد‘‘ (جو مولوی غلام احمد سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ وتعلیم الاسلام کالج) نے شائع کی ہے۔ کوئی صاحب اس وقت تک نہ خریدیں جب تک نظارت دعوۃ تبلیغ کی طرف سے اس کی خریداری کا اعلان نہ ہو۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۳ئ)
ایک ٹریکٹ کے متعلق اعلان کیاگیا کہ: ’’اس ٹریکٹ کو ضبط کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ جس صاحب کے پاس یہ ٹریکٹ موجود ہو وہ اسے فوراً تلف کر دیں اور شائع کرنے والے صاحب سے جواب طلب کیا گیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ جس قدر کاپیاں اس ٹریکٹ کی ان کے پاس ہوں۔ وہ سب تلف کر دی جائیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۳۳ئ)
جب نظارت تالیف وتصنیف کو اس ٹریکٹ کی اشاعت کا علم ہوا تو اس نے اس کی اشاعت ممنوع قرار دے دی اور اسے بحق جماعت ضبط کر کے تلف کر دینے کا حکم دے دیا۔ نیز ٹریکٹ شائع کرنے والے سے جواب طلب کیا۔ (الفضل قادیان مورخہ ۴؍دسمبر ۱۹۳۴ئ)
غور کیجئے کہ اب ریاست کے مکمل ہونے میںکوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ خلیفۂ قادیان فرماتے ہیں: ’’اب تک تین رسالوں کو میں اس جرم میں ضبط کر چکا ہوں۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۴؍مارچ ۱۹۳۶ئ)ربوہ کا روسی نظام
ریاست ربوہ میں کوئی ایسا لٹریچر داخل نہیں ہوسکتا جو اس ریاست کی پالیسی کے خلاف ہو۔ اسی طرح اس ریاست میں روسی نظام کی طرح کوئی آدمی بھی جو ان کے خیال کا ہمنوا نہ ہو۔ اس کو آزادی سے کسی سے ملنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ وارد شدہ آدمی سے کسی قسم کی گفتگو کر سکے۔ چنانچہ غلام محمد جو خلیفہ قادیان کے نظریات اور عقائد کے خلاف ہیں۔ ایک نجی کام کے لئے ربوہ میں گئے۔ ربوہ کی تھاٹ پولیس نے ربوہ سے نکال دیا۔ تاکہ وہ لوگوں میں اپنے خیالات، افکار کا اثر نہ چھوڑ سکے۔