خوف وہراس
ربوہ میں ایک ایسا محکمہ ہے جو لوگوں کے افکار ونظریات کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ اگر کسی احمدی کا نظریہ اور رائے خلیفہ صاحب کے نظریہ سے مختلف ہو تو اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات وافکار کو خلیفہ کے نظریات وافکار کے مطابق ڈھالے۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو اس کو مختلف طریق سے گزند پہنچانے کی پوری پوری سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ مجبور ہوکر مرکز کو چھوڑ جائے۔ ان تکالیف کے باوجود اگر ریاست ربوہ نہ چھوڑنے پر بضد ہو تو محکمہ امور عامہ مقامی پولیس سے مل کر اس پر جھوٹا مقدمہ بنا کر خوف وہراس میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ چند سال ہوئے (خاکسار) موسم گرما کی تعطیلات گزارنے ربوہ ریاست میں گیا تو ربوہ کی ’’تھاٹ پولیس‘‘ (Thought Police) نے مجھے اپنے ڈھب کا نہ پایا تو مجھ پر ایک چوری کا مقدمہ بنادیا۔ تھانیدار اور سپاہی نے مجھے واشگاف الفاظ میں یہ کہا کہ نظارت امور عامہ آپ کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے بہتر صورت یہی ہے کہ آپ ربوہ کو چھوڑ دیں۔تھاٹ پولیس (Thought Police)
جاپان میں بھی دوسری عالمگیر جنگ سے پہلے شاہی کاڈو (Shahi Kadoo) کی حکومت میں پولیس کا ایک حصہ تھا۔ جس کو تھاٹ پولیس کہتے ہیں۔ اس پولیس کا یہ فرض ہوتا تھا کہ ملک میں لوگوں کی گفتار اور افکار کا جائزہ لیتی رہے۔ یہی حال ربوی میکاڈو کا ہے۔ جو اپنی ریاست میں کسی کونہ سوچنے دیتا ہے۔ نہ کسی کو آزادی سے تالیف وتصنیف کرنے دیتا ہے۔ چنانچہ خلیفہ قادیان فرماتے ہیں: ’’قاعدہ یہ ہے کہ تمام وہ لٹریچر جو احمدی احباب تصنیف فرماویں۔ (گو وہ کسی موضوع پر ہو) تو محکمہ تالیف واشاعت میں روانہ فرماویں اور محکمۂ مذکور بعد ملاحظہ وتصحیح ضرور یہ اسے اشاعت کے لئے منظور کرے اور کوئی کتاب یا رسالہ بغیر محکمہ مذکور کے پاس کرنے کے احمدی لٹریچر میں شائع نہیں ہوسکتا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۲۲ئ)
’’اسی طرح مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ نے بمنظوری حضرت خلیفۃ المسیح بذریعہ ریزولیوشن نمبر۱، ۱۹۲۸ء یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سلسلہ کی طرف سے کوئی کتاب ٹریکٹ وغیرہ بغیر منظوری نظارت تالیف واشاعت چھپنے اور شائع ہونے نہ پائے۔ اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو اس کتاب کی اشاعت بند کر دی جائے گی۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۹؍جنوری ۱۹۳۳ئ)