رشتہ داروں سے ملنا ممنوع
اسی طرح محمد یوسف ناز (خلیفہ قادیان کا محرم راز) اور ان کے ہمراہ عبدالمجید اکبر جو ان کے ماموں ہیں۔ اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو ملنے کے لئے ربوہ گئے تو ان کی خانہ ساز پولیس نے اپنی کڑی نگرانی میں گھیر کرناظر امور عامہ کے سامنے پیش کر دیا تو ان کو اپنے رشتہ دار سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔ بلکہ ان کو حکم دیا کہ وہ ریاست ربوہ کو فوراً سے پیشتر چھوڑ دیں۔ ورنہ ان کی زندگی کے ہم ذمہ دار نہیں ہوںگے۔
ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خلیفۂ قادیان ربوہ کی طرف سے ایک ایسا آہنی نظام قائم ہے کہ ریاست ربوہ کے لوگ نہ تو مخالفین کے خیالات سن سکتے ہیں اور نہ وہ دوسروں کا لٹریچر پڑھ سکتے ہیں۔ میں حکومت پاکستان سے استدعا کرتا ہوں کہ ایک مذہبی، دینی اور تبلیغی جماعت جنہوں نے دوسروں تک اپنی بات پہنچائی ہوتی ہے۔ ان کی طرف سے لا امتناعی اور تعزیری اقدام ان کے لئے باعث فخر ہو سکتے ہیں۔ پس گورنمنٹ کا اوّلین فرض ہے کہ ریاست ربوہ کے لوگوں کو آزادئے ضمیر دینے کے لئے مناسب اقدام کرے۔ تاکہ وہ اس مطلق العنان آمر کے آہنی چنگل سے نجات پاسکے۔
حکومت کے خواب
خلیفہ صاحب کے رگ وریشہ میں سیاست رچی ہوئی ہے۔ اگر ان کے اعلانات کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے پردہ میں سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں اور سیاست کی برکتوں سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کی ابتلاء انگیزیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ خلیفۂ قادیان اکثر کہا کرتے ہیں۔
’’ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے اس کی روح کو کچل دیں گے۔ ایسے ہی مقاصد کے لئے یہ دفتر امور عامہ ایسے احمدی افیسران جو گورنمنٹ یا ڈسٹرکٹ بورڈوں یا فوج یا پولیس، سول، بجلی، جنگلات، تعلیم وغیرہ کے محکموں میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مکمل پتے مہیا رکھتا ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۳۲ئ)
کبھی وہ واشگاف الفاظ میں کہہ دیتے ہیں: ’’پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں۔ وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہے۔ وہ خلیفہ کی بیعت ہی کیا کرتا ہے۔ اس کی کوئی بیعت نہیں۔ دراصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے… پس اس سیاست کے مسئلہ کو اگر میں نے