آزادیٔ رائے پر پابندی ریاست ربوہ کا گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ وہاں کسی کو آزادیٔ ضمیر حاصل نہیں۔ ہر کس وناکس کو یہ مجبور کیا جاتا ہے کہ اس نہج پر سوچے جو خلیفہ صاحب نے تجویز کیا ہے۔ یہ آمرانہ نظام بعینہ ہی روسی نظام کے مشابہ ہے۔ جہاں تمام لوگوں کو ایک ہی راستہ پر سوچنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور ایک ہی قسم کا لٹریچر پیدا کیا جاتا ہے اور ایسے ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں کہ بیرونی دنیا کے خیالات کے اثرات اندر نہ آسکیں۔ ریاست ربوہ میں تمام قسم کے اخبارات نہیں آسکتے۔ ایک سنسر بورڈ قائم کیا ہوا ہے جو پہلے کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتا ہے۔ جس اخبار اور کتاب کو اپنی پالیسی کے خلاف نہ پائیں۔ ان کے پڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے اور جو اخبارات اور کتب ان کی پالیسی کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان کا داخلہ ربوہ میں کلیتہً ممنوع ہے۔
اخبار فروش کا واقعہ
چنانچہ حال ہی میں ایک واقعہ ربوہ میں رونما ہوا کہ چنیوٹ کا ایک اخبار فروش ’’مبارک علی‘‘ نامی ربوہ میں اخبار بیجنے گیا۔ تو وہاں کی خانہ ساز پولیس نے اس کو گھیر لیا اور دفتر ناظر امور عامہ یعنی (ہوم سیکرٹری) کے پاس لے گیا۔ بدقسمتی سے اس کے پاس نوائے پاکستان کے پرچے بھی تھے۔ وہ اس سے جبراً چھین لئے گئے اور اس کے سامنے ہی ان پرچوں کو پھاڑ کر جلادئیے گئے اور اس اخبار فروش کو مار کوٹ کر ربوہ سے باہر نکال دیا گیا۔
اسی طرح ’’اخبار الفضل‘‘ میں بارہا دفعہ ناظر امور عامہ کی طرف سے یہ اعلان ہوچکا ہے کہ مخالفین یعنی گھر کے بھیدی کو جو لٹریچر بھی احمدیوں کے پاس پہنچے۔ اس کو مت پڑھیں۔ بلکہ وہ مرکز میں بھیج دیں۔ (الفضل قادیان مورخہ ۷؍اپریل ۱۹۵۷ئ)
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور
مذکورہ بالا اعلان میں آپ کلی طور پر منع فرماتے ہیں کہ گھر کے بھیدی کا لٹریچر خواہ وہ ’’مسیح موعود‘‘ کا ہی لٹریچر پیش کریں۔ قطعاً نہ پڑھیں اور ستیارتھ پرکاش جیسی گندی کتاب اپنے خلف الرشید کو پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ چنانچہ خلیفہ صاحب فرماتے ہیں: ’’میرے بچے جو جوان ہوگئے ہیں۔ میں ہمیشہ انہیں کہا کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے علاوہ ستیارتھ پرکاش اور انجیل وغیرہ بھی پڑھا کرو۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲؍اگست ۱۹۳۹ئ)