جعلی غیرمنظور شدہ بینک کی۔ اس بینک کے متعلق بعض اعلانات ملاحظہ ہوں۔
’’چالیس سال سے قائم شدہ صیغۂ امانت صدر انجمن احمدیہ اس صیغہ کو حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح ایدہ اﷲ کی بابرکت سرپرستی کے علاوہ بفضلہ تعالیٰ اس وقت مشہور انگلش بینک سے تربیت یافتہ ٹرینڈ اور مخلص نوجوانوں کی خدمات حاصل ہیں۔ آپ کا یہ قومی امانت فنڈ اس وقت خدا کے فضل ورحم سے ملکی بینکوں کے دوش بدوش اپنے حساب داران امانت کی خدمت پورے اخلاص اور محنت سے سرانجام دے رہا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد اس صیغہ نے جو شاندار خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ بھی آپ سے پوشیدہ نہیں۔ اس لئے اب آپ کو اپنا فالتو روپیہ ہمیشہ صیغۂ امانت صدر انجمن احمدیہ میں ہی جمع کروانا چاہئے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۵۷ئ)
’’کیا آپ کو علم ہے کہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے خزانہ میں احباب اپنی امانت ذاتی کا حساب کھول سکتے ہیں اور جو روپیہ اس طرح پر جمع ہو وہ حسب ضرورت جس وقت بھی حساب دار چاہے واپس لے سکتا ہے۔ جو روپیہ احباب کے پاس بیاہ، شادی، تعمیر مکان، بچوں کی تعلیم یا کسی اور ایسی ہی غرض کے لئے جمع ہو اس کو بجائے ڈاک خانہ یا دوسرے بینکوں میں رکھنے کے خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرانا چاہئے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۳۸ئ)
مذکورہ بالا حوالہ واضح طور پر اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ احمدی لوگ ڈاکخانوں اور بینکوں میں اپنا روپیہ جمع نہ کروائیں۔ میرے خیال میں ملک کے کسی بڑے سے بڑے بینک نے یہ جرأت نہیں کی کہ لوگوں کو یہ تلقین کرے کہ ڈاکخانہ میں اپنا روپیہ جمع نہ کروائیں۔ یہ بینک ریاست ربوہ کو بوقت ضرورت روپیہ مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ صاحب خود اور ان کے عزیز واقارب اس بینک سے بھاری رقوم نکال کر اپنی تجارتیں چلا رہے ہیں۔ خلیفہ صاحب نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس بات کا غیرمبہم الفاظ میں یہ اقرار کیا تھا کہ وہ بیت المال سے اور ڈرافٹ کے ذریعہ روپیہ حاصل کیا تھا۔ اس وقت تک خلیفہ صاحب اور ان کا خاندان اس بینک سے تقریباً سات لاکھ روپیہ کی ایک خطیر رقم لے چکے ہیں۔ یہ اس بینک کے روپے سے سیاسی افادیت حاصل کی جاتی ہے۔ خلیفہ صاحب خود فرماتے ہیں: ’’اگر دس بارہ سال تک ہماری جماعت کے دوست اپنے نفسوں پر زور ڈال کر امانت فنڈ میں روپیہ جمع کراتے رہیں… تو خداتعالیٰ کے فضل سے قادیان اور اس کے گردونواح میں ہماری جماعت کی مخالفت پچانوے فی صدی کم ہو جائے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍جنوری ۱۹۳۷ئ)