حبس بے جا
اس کے بعد ’’چوہدری صدرالدین آف گجرات‘‘ کے ساتھ ایک المناک واقعہ گذرا۔ چوہدری صاحب موصوف کی شہادت کے مطابق ان کو عبدالعزیز بھامڑی بمع اپنی خانہ ساز پولیس کے دفتر بہشتی مقبرہ میں لے گئے۔ وہاں ان کی چھاتی پر پستول رکھ کر بعض تحریریں لکھوائیں۔ یہ کیس تادم تحریر پولیس جھنگ زیر تفتیش ہے۔
اﷲ یار بلوچ
ان اندوہناک واقعات سے ملک اﷲ یار بلوچ کا واقعہ کوئی کم المناک اور تکلیف دہ نہیں۔ جب کہ ملک صاحب موصوف کی اس شک وشبہ کی بنا پر پکڑ لیا گیا کہ وہ خلیفہ صاحب ربوہ کے واضح اور غیر مبہم حکم کے مطابق سوشل بائیکاٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مولوی عبدالمنان صاحب عمر۔ایم۔اے خلف حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل کے گھر اشیاء خوردنی پہنچاتا ہے۔ ان کو اس قدر زدوکوب کیاگیا کہ ابتدائی ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق پسلیاں ٹوٹی ہوئی ثابت ہوئیں۔ ان کا کیس بھی عدالت میں پیش ہے۔
ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اﷲ یار بلوچ کو دن دھاڑے مارا گیا۔ لیکن ’’الفضل‘‘ میں حلفیہ شہادتیں درج ہوئیں کہ یہاں کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا۔ یہی وہ بات ہے جس کی طرف ملک کے اخبارات اور جرائد حکومت کو متواتر آگاہ کر رہے ہیں کہ ربوہ ایک ایسی بستی ہے اگر وہاں سورج کی روشنی میں کوئی آدمی قتل بھی کر دیا جائے تو شہادتیں میسر ہونی ناممکن ہیں۔ اس وجہ سے پریس ایک عرصہ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ یعنی اس میں دوسرے کو ایک عمرانی منصوبے کے ماتحت بسائے جائیں۔ لیکن ابھی تک یہ مطالبہ صدائے بہ صحراء ثابت ہورہا ہے۔
ربوہ کا سٹیٹ بینک ربوہ میں ایک غیرمنظور شدہ بینک خلیفہ قادیان کی زیرنگرانی چل رہا ہے۔ جسے امانت فنڈ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس صیغہ کی طرف سے باقاعدہ، چیک بک اور پاس بک جاری کی جاتی ہے۔ جن کا ڈیزائن منظور شدہ بینکوں کی چیک بکوں اور پاس بکوں سے ملتا جلتا ہے۔ ان کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا کہ آیا یہ چیک بک یا پاس بک کسی منظور شدہ بینک کی ہے یا کسی