اپنا ہم خیال بنالیں۔ احمدیوں کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہی ہوں اور دوسروں کا کچھ اثر نہ ہو… احمدیوں کے پاس ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑہ بھی نہیں ہے۔ جہاں احمدی ہی احمدی ہوں۔ کم از کم ایک علاقہ کو مرکز بنالو اور جب تک اپنا مرکز نہ ہو۔ جس میں کوئی غیر نہ ہو۔ اس وقت تک تم مطلب کے مطابق امور جاری نہیں کر سکتے۔ ایسا علاقہ اس وقت تک ہمیں نصیب نہیں ہوا… جو خواہ چھوٹے سے چھوٹا ہو مگر اس میں غیر نہ ہوں۔ جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ہمارا کام بہت مشکل ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۲۲ئ)
چناب کے اس پار آہنی پردہ
یہ وہ سیاسی عزم ہے کہ جو خلیفۂ قادیان کے عقل وقلوب پر بری طرح مسلط ہے۔ کیا دینی جماعتوں کو اشاعت اسلام کے لئے ایسے علاقے مطلوب ہیں جو کلیتہً ان کی ہی ملکیت ہوں اور وہاں اور کوئی نہ بستا ہو۔ کیا سید الکونین سردار دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے کسی ایسے صدر مقام کی تلاش کی تھی۔ جس میں کوئی غیر نہ ہو۔ جہاں سے وہ تبلیغ اسلام کا کام جاری رکھ سکیں۔ بس ان کی یہ دیرینہ آرزو ربوہ میں پوری ہوگئی۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ چناب کے کنارے پر قائم ہوچکی ہے۔ وہاں سوائے محمودیوں کے اور کوئی آباد نہیں۔ پاکستان میں صرف ایک ہی حصہ ہے جس میں ایک ہی فرقہ کے لوگ بستے ہیں۔ یہ وہ آہنی پردہ ہے جہاں ملک کا قانون بے بس اور درماندہ ہے۔ اگر وہاں دن دھاڑے قتل بھی کر دیا جائے تو پولیس قاتلوں کے سراغ لگانے میں ناکام ہوجاتی ہے۔
مسلم لیگی ورکرز
چنانچہ ایک دو سال ہوئے کہ دو مسلمانوں کو سحری کے وقت پکڑ کر اتنا زدوکوب کیا گیا کہ ان میں سے ایک مشہور مسلم لیگی ورکزر مولوی غلام رسول لائل پور کا لڑکا جاں بحق ہوگیا۔ لیکن واقعہ یوں بتایا گیا۔ یہ لوگ مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔
ربوہ کی خانہ ساز پولیس
اسی طریقے سے نعمت اﷲ خان ولد محمد عبداﷲ خان صاحب جلد ساز کو جب کہ دو اڑھائی بجے رات کی گاڑی سے اترا تو ربوہ کی خانہ ساز پولیس نے اتنا مارا کہ اس غریب بیچارے کی پنڈلیاں توڑ دی گئیں اور تمام زندگی کے لئے ناکارہ کر دیا اور بعد ازاں مقامی پولیس میں پرچہ چوری کا دے دیا۔