ساتھ ہمارے مرکز کی واپسی مقدر ہے تب بھی ضروری ہے کہ آج ہی سے ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار رہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
تقسیم ہند کے بعد دوبارہ اکھڑی ہوئی فوجی تنظیم فرقان فورس کی شکل میں جمع ہوگئی تو خلیفہ صاحب کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ایک مرکز ہونا چاہئے۔ جہاں اپنے نوجوانوں کو مزید فوجی تربیت دی جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی بے اعتدالیوں، عفونتوں، گندگیوں، ناپاکیوں اور برائیوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔ خلیفہ صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا۔ ’’یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جب تک ہماری بیس(Base) مضبوط نہ ہو۔ پہلے (Base) مضبوط ہو تو تبلیغ مضبوط ہو سکتی ہے… بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تاکہ ہم کم ازکم ایک صوبہ تو اپنا کہہ سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں میں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہمارا ہی شکار ہوگا۔ دنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ئ)
ڈائنا میٹ سے مخالفت کا قلعہ اڑادو
یہ واقعہ اخبارات میں آچکا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ خلیفۂ قادیان کی فوجی نظام کی تجویز بہت پرانی ہے۔ ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش چلی آرہی ہے کہ ایک خاص علاقہ احمدیوں سے معمور ہو۔ تاکہ خلیفۂ قادیان کا حکم آسانی سے چل سکے۔ تقسیم ہند سے پہلے آپ کی نظر ضلع گورداسپور پر تھی۔ خلیفۂ قادیان فرماتے ہیں: ’’گورداسپور کے متعلق میں نے غور کیا ہے۔ اگر ہم پورے زور سے کام کریں تو ایک سال میں ہی فتح کر سکتے ہیں… اس وقت ڈائنامیٹ رکھا جاچکا ہے اور قریب ہے کہ مخالفت کا قلعہ اڑا دیا جائے۔ اب صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ جب دیا سلائی دکھائی گئی قلعہ کی دیوار پھٹ جائے گی اور ہم داخل ہو جائیں گے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۳۱ئ)
اور پھر ارشاد فرماتے ہیں: ’’مردم شماری کے دنوں میں گورنمنٹ بھی جبراً لوگوں کو اس کام پر لگا سکتی ہے۔ اگر کوئی انکار کرے تو سزا کا مستوجب ہوتا ہے۔ پس میں بھی ناظروں کو حکم دیتا ہوں کہ جسے چاہیں مدد کے لئے پکڑ لیں۔ مگر کسی کو انکار کا حق نہ ہوگا اور اگر کوئی انکار کرے تو میرے پاس اس کی رپورٹ کریں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۲۲ئ)
انہی مقاصد کے پیش نظر قادیان اور ماحول قادیان کا نقشہ بھی تیار کروایا گیا۔
’’ایک تو جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اور نہیں تو اس ضلع (گورداسپور) کو تو