فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے۔ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔‘‘ (مورخہ ۵؍جون ۱۹۳۷ء الفضل)
’’اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہی عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جاؤ گے یا گالیاں دینے والوں کو مٹا دو۔ اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم! تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں نہیں توڑتا۔‘‘ (مورخہ ۵؍جون ۱۹۳۷ء الفضل) ’’جسمانی ذرائع دعاؤں کے ساتھ وہ تمام تدابیر اور تمام ذرائع کو خواہ وہ روحانی ہوں… استعمال کریں۔‘‘ (مورخہ ۹؍جولائی ۱۹۳۷ء الفضل)
اسی پر بس نہیں… پھر یوں فرماتے ہیں: ’’تو احمدیوں کا خون اس کی (حکومت) گردن پر ہوگا… ہم دنیا میں نابود ہونا… منظور کر لیں گے… احمدی جماعت زندہ جماعت ہے… وہ ہر قربانی پیش کرے گی۔‘‘
’’مظلومیت (قانونی نقطہ ملاحظہ ہو) کے رنگ میں عمر قید چھوڑ پھانسی پر بھی لٹکایا جائے تو ہم اسے باعث عزت سمجھیں گے۔‘‘ (مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۳۷ء الفضل)
اس کے بعد میں بعض ان امور کی طرف گورنمنٹ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جو ریاستوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ ریاست ربوہ میں بدرجہا اتم موجود ہیں۔ تفصیل کے ساتھ ان امور کے بارے میں آئندہ علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی جائے گی۔
ربوہ کا نظام حکومت
اب میں خلیفہ صاحب کی تقاریر اور خطبات کے اقتباسات کی روشنی میں خلافتی حکومت کا تفصیلی خاکہ بیان کرتا ہوں۔
حاکم اعلیٰ
’’ریاست میں حکومت اس نیابتی فرد کا نام ہے۔ جس کو لوگ اپنے مشترکہ حقوق کی نگرانی سپرد کرتے ہیں۔‘‘ (مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۶ء الفضل)
خلیفہ صاحب کا یہ مذہب ہے کہ کوئی آدمی بھی خواہ وہ حق پر ہو خلیفۂ وقت سچا اعتراض بھی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اعتراض کرے تو وہ دوزخی اور ناری ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’جس مقام پر