تزک واحتشام کے ساتھ قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن کیاگیا۔ اس کا فوٹو شائع کیاگیا۔ اس کی موت کو شہادت کا درجہ دیا گیا۔ اس کو ولی اﷲ ملہم بنایا گیا۔ اس کا چہرہ ہر احمدی کو دکھایا گیا اور اس کے مقدمہ میں جماعت کا ہزارہا روپیہ بھی صرف کیاگیا۔ (۱۹۳۰ء الفضل)
محمد امین پٹھان کا قتل
اس فیصلہ میں ’’محمد امین پٹھان‘‘ کے قتل کا بھی ذکر ہے۔ جو ’’فتح محمد سیال‘‘ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ لیکن پولیس کاروائی کرنے سے قاصر رہی۔ فیصلہ مذکور میں تحریر ہے۔
’’مرزائی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ کوئی سامنے آکر سچ بولنے کے لئے تیار نہ تھا۔ ہمارے سامنے عبدالکریم کے مکان کا واقعہ بھی ہے۔ عبدالکریم کو قادیان سے نکالنے کے بعد اس کا مکان جلادیا گیا۔ اس قادیان کی سمال ٹاؤن کمیٹی سے حکم حاصل کر کے نیم قانونی طریقے سے گرانے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ افسوس ناک واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قادیان میں طوائف الملوکی تھی۔ جس میں آتش زنی اور قتل تک ہوتے تھے۔‘‘
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکام ایک غیرمعمولی درجہ کے فالج کے شکار ہوچکے تھے اور دنیاوی اور دینی معاملات میں مرزامحمود احمد کے حکم کے خلاف کبھی آواز نہ آٹھائی گئی۔ مقامی افسروں کے پاس کئی مرتبہ شکایات کی گئیں۔ لیکن کوئی انسداد نہ ہوا۔ مسل پر ایک دو ایسی شکایات ہیں لیکن ان کے مضمون کا حوالہ دینا غیرضروری ہے اور اس مقدمہ کے لئے یہ بیان کر دینا کافی ہے کہ قادیان میں ظلم وجور جاری ہونے کے متعلق غیر مشتبہ الزام عائد کئے گئے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طرف مطلقاً توجہ نہ کی گئی۔‘‘
مزید فیصلہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’مرزا (یعنی محمود احمد) نے مسلمانوں کو کافر، سور اور ان کی عورتوں کو کتیوں کا خطاب دے کر ان کے جذبات کو مشتعل کردیا تھا۔‘‘
(فیصلہ مسٹر جی۔ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور)
(مندرجہ احتساب قادیانیت ج۳۶ ص۵۶۵تا۵۷۴)قتل کے نتائج سے بچ نکلنا
عدالت کا یہ فیصلہ خلیفہ صاحب کی سیاسی عزائم کی عکاسی کرتا ہے کہ قادیان میں خلیفہ صاحب کے لئے قتل کرنا اور قتل کے نتائج سے بچ نکلنا ایک بالکل معمولی امر تھا۔ یہی معاملہ ربوہ میں بدرجہ اتم رونما ہورہا ہے۔ کیونکہ یہ خالص احمدیوں کی بستی ہے۔ یہاں ملک کا قانون بھی بے