بس اور بے کس ہے اور حکومت دوربینی سے کام لیتی اور صدر انجمن احمدیہ کو یہ زمین اونے پونے نہ دیتی۔ بلکہ اس کی جماعت کو دوسری بستیوں اور شہروں میں آباد کرتی تو خلیفہ صاحب ایک خطہ میں اپنی من مانی نہ کر سکتے۔ بلکہ ایسا نہ ہوا۔ ان کو ایک ایسا وسیع رقبہ الگ تھلگ دے دیا۔ جہاں خلیفہ صاحب کا سکہ رواں ہے۔ کسی کی کیا مجال ان کے حکم کے سامنے دم مار سکے۔ اس مطلق العنانی کی کیفیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے پاکستان کی منیر ٹربیونل رپورٹ میں مرقوم ہے۔
’’۱۹۴۵ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کے آغاز تک احمدیوں کی بعض تحریرات منکشف ہیں کہ وہ برطانیہ کا جانشین بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ نہ تو ایک ہندو دنیاوی حکومت یعنی ہندوستان کو اپنے لئے پسند کرتے تھے اور نہ پاکستان کو منتخب کر سکتے تھے۔‘‘
(رپورٹ منیر انکوائری کمیٹی ص۲۰۹، ۱۹۵۳ئ)
سیاست کاری
اب ہم شاطر سیاست خلیفہ صاحب کی سیاست کاری، اور سیاسی عزائم اور حکومت پر غلبہ حاصل کرنے کے بارہ میں خلیفہ صاحب کے خطبات وتقاریر سے اقتباسات ہدیۂ قارئین کرتے ہیں۔
’’پس اسلام کی ترقی احمدی سلسلہ سے وابستہ ہے اور چونکہ یہ سلسلہ مسلمان کہلانے والی حکومتوں میں پھیل نہیں سکتا۔ اس لئے خدا نے چاہا ہے کہ ان کی جگہ اور حکومتوں کو لے آئے۔ پس مسلمانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے خداتعالیٰ نے تمہاری ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔‘‘
(۱۲؍نومبر ۱۹۱۴ء الفضل)
’’اصل تو یہ ہے کہ ہم نہ انگریز کی حکومت چاہتے ہیں۔ نہ ہندوؤں کی ہم تو احمدیت کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ (مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۲۲ء الفضل)
’’اس وقت حکومت احمدیت کی ہوگی۔ آمدنی زیادہ ہوگی۔ مال واموال کی کثرت ہوگی۔ جب تجارت اور حکومت ہمارے قبضہ میں ہوگی۔ اس وقت اس قسم کی تکلیف نہ ہوگی۔‘‘
(مورخہ ۸؍جون ۱۹۳۶ء الفضل)
’’اس وقت تک تمہاری بادشاہت قائم نہ ہو جائے۔ تمہارے راستے سے یہ کانٹے ہر گز دور نہیں ہوسکتے۔‘‘ (مورخہ ۸؍جولائی ۱۹۳۰ء الفضل)
’’غرض سیاست میں مداخلت کوئی غیردینی فعل نہیں۔ بلکہ یہ ایک دین مقاصد میں