گنگوہی اور دوسرے وہ تمام نامی علماء بھی حاضر ہوں جنہوں نے فتویٔ تکفیر پر مہریں لگائیں یا اب مکفر یا مکذب ہیں۔‘‘ اس سے آپ کے پیشرو کے اس اشتہار کی تکذیب ہوئی جاتی ہے۔ جس کو انہوں نے (ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱، خزائن ج۳ ص۱۰۲) کے ساتھ چسپاں کیا ہے۔ جس عبارت یہ ہے: ’’اگر آپ لوگ مل جل کر یا ایک ایک آپ میں سے ان آسمانی نشانیوں میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمن کے لازم حال ہوا کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہیں شرمندہ کرے گا اور تمہارے پردوں کو پھاڑ دے گا۔‘‘ اب نہ معلوم کہ آپ کا کلام سچا ہے یا آپ کے پیشرو کا۔ کیا عجب ہے کہ جس طرح آپ کے پیشرو قرآن وحدیث کے نصوص کو تغیر وتبدل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ لوگ جو ان کے اتباع ہیںخود ان کے اقوال کو ردوبدل کر سکتے ہوں۔ پھر تو بحث کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہر چیز کے محو واثبات پر اپنا ہی قبضہ ہے۔ معاذ اﷲ منہا!
علاوہ یہ کہ یہ قیود صاف کہہ رہی ہیں کہ آپ لوگوں کو حقیقت ظاہر کرنا منظور نہیں ہے۔ کیونکہ آپ جیسے چند صاحبوں کے سوا جتنے ہیں وہ سب مکذب ہیں۔ پھر اتنے لوگوں کی ایک جائے فراہمی خصوص مختلف المذاہب فرقے مثلاً مقلد وغیرمقلد وغیرہم کا اتفاق محض دشوار ہے۔ داعی خیر وطالب حق کے لئے تو ان قیود کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص کی تسکین کر دینا گو منفرداً ہی آوے۔ اس کے ذمہ واجب ولازم ہے۔
الحاصل
آپ نے جس صورت کو تائید آسمانی قرار دیا تھا۔ وہ تو بشروطہا خود آپ کے پیشرو کے اقوال سے غیرمعتبر نکلی وغلط ٹھہری۔ جس پر آپ کی درخواست بلکہ دعویٰ کی ترکی تمام ہوگئی۔ کیونکہ آپ نے ثبوت دعویٰ میں صرف تائید آسمانی ہی کو اپنا مدار بنایا تھا اور اس کے لئے ایک صورت خاص پیش کی تھی۔ ’’فجاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ اب لیجئے! ہماری بھی سنئے اور اظہار حق کے لئے اگر تائید آسمانی اور یہ کہ خدا کس کے ساتھ ہے، اور اس کا مقدس ہاتھ کس کے سر پر ہے۔ دیکھنا منظور ہو تو طریق ماثور کو اختیار کیجئے۔ یعنی وہ امر آسمانی جس کے لئے ہمارے نبی پاک صاحب لولاک روحی فداہﷺ بمقابلہ منکرین دین حق مامور تھے۔ یعنی مباہلہ جو بفحوائے آیہ کریمہ: ’’فمن حاجک فیہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا