ندع ابناء ناوابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ {پھر جو کوئی جھگڑے تم سے اس بات میں بعد اس کے کہ پہنچ چکا تم کو علم تو کہو آو بلا دیں ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جان اور تمہاری جان پھر دعا کریں اور اﷲ کی لعنت ڈالیں جھوٹوں پر۔}
قرآن پاک سے مستفاد ہے۔ اسی کو تائید آسمانی قرار دینا اور اپنے نبی پاک کی اتباع کرنا چاہئے۔ تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل بطریق کامل ہو جائے اور جو عقویت آجلہ کہ فریق باطل کے لئے مقرر ہے۔ عاجلاً اسی داردنیا میں اس کو پہنچ جائے۔ ہم یقینا خدا وند کریم جل شانہ کو گواہ رکھ کے آپ کے پیشرو کو مخاطب کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ ادھر ہمارے بعض حضرات مدفیوضہم اس مباہلہ کے لئے اس بلدۂ حیدرآباد میں آمادہ ہیں۔ پھر کیا دیر ہے۔ بسم اﷲ مرد میدان بنئے اور مبالہ کے لئے آئیے اور خدا پاک جلت عظمتہ سے رفع اختلاف چاہئے۔ مگر ضرور ہے کہ جب تک کسی فریق کو غلبہ نہ ہولے اور دوسرا ہلاک نہ ہووے۔ تب تک دونوں فریق کے سرگروہ اسی ایک جائے پر رہیں اور اپنی اپنی دعاؤں اور روحی اثروں سے ایک دوسرے پر اثر ڈالیں اور چاہئے کہ دعا کی قبولیت اور روحی اثر کے پورا ہونے کے لئے دونوں جانب کے پیشوا ترک غذا کریں۔ تاکہ فیصلہ کو دیر نہ ہو اور جھوٹے سچے کا بہت جلد ظہور ہو۔ آپ کے پیشرو کو تو مثیل خاتم النبیینﷺ جن کی شان (انی ابیت عند ربی یطعمنے ویسقینی ضرور میں اپنے پروردگار کے پاس رات رہتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے) تہی ہونے کا دعویٰ ہے۔ معاذ اﷲ منہا!
لیکن ہمارے حضرات کو تو غلامی کی نسبت ہے۔ پھر دیکھیں کہ غذا روحی ونوری سے کون اپنے جسم کی پرورش کرتا ہے اور کون پسپا ہو جاتا ہے۔ یہ ہے امر ربانی، یہ ہے تائید آسمانی کہ پھر چون وچرا کا موقع ہی باقی نہ رہے۔ ’’اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ امین والسلام علے من اتبع الدین وصلے اﷲ تعالیٰ علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ اجعمین‘‘ اس کے جواب کا انتظار سلخ جمادی الثانی ۱۳۱۸ھ تک کیا جائے گا۔ درصورت سکوت آپ کا اور آپ کے پیشرو کا مقابلہ سے عاجز اور اپنے دعوے میں کاذب ہونا مسلم ہوگا۔