ان علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا۔ میری عبادت گاہ میں ان کے چولہے ہیں۔ میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کتر رہے ہیں۔ ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں۔ جن کو ہندوستان میں سکوریان کہتے ہیں۔ عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانہ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دنیا سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘
الغرض جب کہ بقول تمہارے پیشرو کے خود انبیاء علیہم السلام کے پیش گوئیاں لائق تاویل ٹھہریں۔ چنانچہ دمشق قادیان قرار پایا وغیرہ وغیرہ اور ان پیش گوئیوں میں غلطی بھی ممکن ہوئی۔ بالخصوص خود تمہارے پیشرو کے الہامات تاویلات سے پر ہیں۔ جن میں سے مشتے نمونہ ہم نے تھوڑے سے الہامات اوپر نقل کئے تو پھر الہام یا اخبار بالغیب کا کیونکر اعتبار کیا جائے اور ایسی بے اعتبار چیز پر کس طرح اتنے بڑے دعوے کا ثبوت موقوف رکھا جائے اور بصورت تسلیم بروقت مقابلہ ہر شخص اپنے الہام سے رہائی پانے والے مریضوں کی تعیین نام بنام جو کرے گا تو بقول تمہارے پیشرو کے اس میں تاویل کو گنجائش رہے گی۔ پس ممکن ہے کہ بعد اچھے ہونے مریضوں کے اگر کچھ اس تعیین میں غلطی ظاہر ہو تو وہ شخص تاویل سے اس کی توفیق وتطبیق کر دے۔ جس میں بڑی وسعت ہے۔ مثلاً رہائی پانے والے مریض کا نام جو بذریعہ الہام عبدالحکیم بتلایا جائے اور بجائے اس کے عبدالحلیم اچھا ہو۔ یا یہ کہ غلام احمد بتلایا جائے اور وہ ہلاک ہو کر بجائے اس کے غلام محمد اچھا ہووے تو اس میں حسب قاعدہ آپ کے پیشرو کے تاویل کو بڑی گنجائش یعنی بلحاظ ترکیب اضافی وغیرہ تطبیق کا عمدہ موقع ہے۔ بخلاف دمشق وقادیان وغیرہ وغیرہ کے کہ بالکل مناسبت معدوم ہے۔ طرفہ یہ کہ (ازالہ اوہام ص۷، خزائن ج۳ ص۱۰۶) میں آپ کے پیشرو یہ کہتے ہیں۔ ’’اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح علیہ السلام کی پیش گوئیاں غلط نکلیں۔ اس قدر صحیح نکل نہ سکیں۔‘‘ پس ضرور ہوا کہ مثیل مسیح کی پیش گوئیاں بھی اکثر غلط نکلیں کہ مماثلت اسی کے مقتضی ہے۔
۵… درخواست کے ص۷ کے حاشیہ میں اس مقابلہ تائید آسمانی کے لئے آپ لوگوں کا یہ قید لگانا کہ: ’’سب ملک کر مقابلہ کریں۔ متفرق طور پر ہر ایک سے مقابلہ نہیں ہوگا۔‘‘
اور ص۸ میں یہ شرط لگانا کہ: ’’اور آپ لوگوں کی طرف سے میاں نذیر حسین دہلویؒ اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنویؒ اور مولوی رشید احمد صاحب