رسول آئے۔ جن کی نسبت پہلی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود تھیں ان کے سخت منکر اور اشد دشمن وہی لوگ ہوئے ہیں کہ جو پیش گوئیوں کے الفاظ کو ان کی ظاہری صورت پر دیکھنا چاہتے تھے۔‘‘
اور (ازالہ اوہام ص۶۳، خزائن ج۳ ص۱۳۴ حاشیہ) میں لکھا ہے۔ جس کا ملخص یہ ہے: ’’اب یہ جاننا چاہئے کہ دمشق کا لفظ جو مسلم کی حدیث میں وارد ہے۔ یعنی صحیح مسلم میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید مشرقی کے پاس اتریں گے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۵، خزائن ج۳ ص۱۳۵ حاشیہ) ’’پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اﷲ یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھاگیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ جن کے دلوں میں اﷲ ورسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الٰہی کی کچھ عظمت نہیں۔ جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو اپنا معبود بنارکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خداتعالیٰ کا موجود ہونا ان کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جو انہیں سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ الی ان قال!
(ازالہ اوہام ص۷۱، خزائن ج۳ ص۱۲۸) ’’اب پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمادیا ہے کہ یہ قصبہ قادیان ہے… خداتعالیٰ خوب جانتا ہے اور وہ اس بات کا شاہد حال ہے کہ اس نے قادیان کو دمشق سے مشابہت دی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۳، خزائن ج۳ ص۱۳۸) ’’یہ بھی مدت سے الہام ہوچکا ہے کہ انا انزلناہ قریباً من القادیان وبالحق انزلناہ وبالحق نزل وکان وعداﷲ مفعولا یعنی ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور سچائی کے ساتھ اتارا اور سچائی کے ساتھ اترا اور ایک دن وعدہ اﷲ کا پورا ہونا تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۱۳۹) ’’گویا یہ فقرہ اﷲ جل شانہ نے الہام کے طور پر اس عاجز کے دل پر القا کیا ہے کہ انا انزلنا قریباً من القادیان اس کی تفسیر یہ ہے کہ انا انزلناہ قریباً من دمشق بطرف شرقی عند المنارۃ البیضاء کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے مشرقی کنارہ پر ہے۔ منارہ کے پاس۔‘‘
اور (ازالہ ص۷۶، خزائن ج۳ ص۱۴۰ حاشیہ) میں ہے: ’’پھر اس کے بعد الہام کیاگیا کہ