دکھلانے، اس کی جانب متوجہ کرنے کی اور انہیں پھر سے جادۂ حق پر واپس لانے کی مخلصانہ جدوجہد مسلسل جاری رکھیں۔
ان حضرات کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر مصر ہیں۔ اسلام کے نام پر تبلیغ واشاعت کر رہے ہیں۔ مساجد نما عمارتیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن مجید کے تراجم شائع کرتے رہے اور اپنے آپ کو وہ اسلام کا خادم، مبلغ اور جانثار ظاہر کرتے ہیں۔
ان کی یہ کوششیں بظاہر ہر اس شخص کے لئے باعث مسرت ہونی چاہئیں جو اسلام کی دعوت کو عام کرنے کا متمنی ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اسلام پوری دنیا پر چھا جائے اور وہ یوم سعید آئے کہ نسل انسانی خاتم الانبیاء فداہ ابی وامیﷺ کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کر کے دنیوی اور اخروی فلاح کی سعادت سے بہرہ ور ہو۔ لیکن جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی یہ امت اسلام کی تبلیغ کے نام پر ایسے عقائد، افکار اور نظریات کی اشاعت میں مصروف ہے۔ جو عقائد ونظریات اس اسلام کی نفی کے مترادف ہیں۔ جو سید الاوّلین والآخرینﷺ نے خیر بقاع الارض مکہ معظمہ اور انوار نبوت کے مرکز اعظم مدینہ طیبہ میں پیش فرمائے۔ جن کی صحیح وضاحت، قرآن مجید اور احادیث نبویہ کرتے ہیں اور مزید یہ کہ قادیانی حضرات، اسلام کے نام پر کافرانہ عقائد کی تبلیغ کے ذریعہ امت خیرالانامﷺ کے افراد کو بدراہ کرتے اور ملت کے جسد سے بوٹیاں نوچ نوچ کر اپنے اجتماعی وجود کو غذا مہیا کررہے ہیں اور اس سے بھی آگے یہ حضرات مسلم ممالک پر لوائے احمدیت لہرانے کے لئے سیاسی میدان میں بھی گفتنی وناگفتنی کے مرتکب ہورہے ہیں اور یہ حضرات یہودیوں کی طرح یہ خواب بھی دیکھ رہے ہیں کہ مکہ معظمہ کو قادیانیت کی تبلیغ کا مرکز بنائیں۔ ان کا تصور وعزم مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند اور ان کے خلیفہ ثانی، مرزامحمود احمد کے الفاظ میں یہ ہے کہ: ’’میرے نزدیک احمدیت کے پھیلنے کے لئے اگر کوئی مضبوط قلعہ ہے تو مکہ مکرّمہ ہے۔ یا دوسرے درجہ پر پورٹ سعید… ایسے ایسے علاقوں میں حضرت (مرزاغلام احمد قادیانی) کا نام پہنچ جائے۔ جہاں ہم مدتوں نہیں پہنچ سکتے… مکہ مکرمہ سب سے بڑا مقام ہے۔ وہاں کے لوگ ہمارے بہت کام آسکتے ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۲۱ئ)
اور اس سلسلے میں ان کے جذبات کی شدّت اور قلبی کیفیت یہ ہے کہ مرزامحمود نے ۱۹۲۰ء کے سالانہ جلسہ قادیان میں یہ تک فرمادیا کہ: ’’مکہ مکرمہ میں مشن کی تجویز ہے۔ ایک