خود مرزامحمود احمد قادیانی بصد فخر ومباہات اعلان کرتے ہیں کہ: ’’عراق کے فتح کرنے میں احمدیوں نے خون بہائے اور میری تحریک پر سینکڑوں آدمی (انگریز کی فوج میں) بھرتی ہوکر (عراق اور دوسرے مسلم ممالک پر حملہ کرنے کے لئے) چلے گئے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۲۳ئ)
القصہ ۱۹۱۹ء میں ختم ہونے والی پہلی عالمگیر جنگ میں عرب وعجم کے متعدد ممالک پر برطانوی استعمار کے غلبے کا تقاضا یہ تھا کہ پورٹ سعید اور پورے عالم اسلام کے ایمانی مرکز حرمین میں وہ عناصر موجود ہوں جو برطانیہ کے اسلام دشمن اور مسلم کش پروگراموں کی تکمیل کا ذریعہ بنیں۔ اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے مرزامحمود احمد بے چین تھے کہ مکہ مکرمہ اور پورٹ سعید میں مشن قائم ہوں۔
یہ تفصیلات قادیانیت کی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس امت کی تاسیس وترقی کا مقصد بعینہ وہی تھا جو صیہونیت کی تحریک اور اسرائیلی ریاست کے قیام کا محرک تھا۔
قادیانیوں کا یہ دوسرا رخ ہر مسلمان کے لئے موجب اضطراب ہے اور وہ جتنے وسیع پیمانے پر قادیانیوں کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ اسی نسبت سے وہ مضطرب ہوتا اور یہ محسوس کرتا ہے کہ قادیانی امت، اسلام، امت مسلمہ کے وجود ملی اور عالم اسلام کے لئے صیہونی فتنے سے بھی زیادہ خطرناک فتنہ ہے اور اس کا ایمان تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس فتنے کے استیصال کے لئے وقف کر دے اور دامے، درمے، قدمے، سخنے جو کچھ وہ اخلاص کے ساتھ کر سکتا ہو اس میں کوتاہی نہ کرے۔
قادیانی امت کی یہ دو حیثیتیں باہم متضاد ہیں اور ان دونوں کے ردعمل بھی بڑی حد تک ایک دوسرے کے بالضد ہیں۔ مثلاً انسانی رشتے کی بنیاد پر قادیانیوں کو دعوت الیٰ اﷲ کے ذریعہ ازسر نو رحمتہ اللعالمینﷺ کے دامن رحمت میں لانے کا کام، نرم دلی، حلم، بردباری، مروت، گفتگو میں احترام واکرام کا متقاضی ہے اور اس سے یکسر مختلف ان کے شر سے اسلام اور مسلمانوں کو بچانے کا فریضہ، شدت، جرأت، شجاعت، حمیت، غیرت اور غلظت کے بغیر کما حقہ ادا نہیں ہوسکتا۔
’’یاایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم (التوبہ:۷۳)‘‘ {اے نبی! کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کیجئے اور ان سے شدت کے ساتھ نبٹئے۔}
اس دوہری صورتحال کا احساس دوسرے احباب کو کس طرح ہوتا ہے اور ان کی پریشانی