روح پر اثر ڈال کر روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں۔ بہت ضعیف اور نکما ہو جاتا ہے اور امر تنویر باطن اور تزکیہ نفوس کا جو اصل مقصد ہے اس کے ہاتھ سے بہت کم انجام پذیر ہوتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۲، خزائن ج۳ ص۲۶۳) میں ہے: ’’غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ۱؎ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر انہیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہوگیا تھا۔‘‘
غرض یہ کہ ازالۂ مرض جب کہ خود تمہارے پیشرو کے قول سے لائق اعتبار نہ رہا۔ بلکہ ایک مسمریزمی عمل قرار پایا۔ جس کے عامل صدہا اس زمانہ میں بھی موجود ہیں اور جس میں اس قدر اثر ہے کہ جمادات تک بھی متحرک ہوتے ہیں تو پھر کس طرح تائید آسمانی قرار پاسکتا، اور تمہارے ثبوت مدعیٰ کا مدار بن سکتا۔ سخت حیرت کا مقام ہے کہ جس چیز سے آپ کے پیشرو متنفر ہوں اسی کو آپ لوگ تائید آسمانی قرار دیویں۔ مزید براں اس مقابلہ تائید آسمانی میں آپ نے شرط اوّل یعنی ص۶ کی یہ عبارت (رہائی پانے والا کا نام بذریعہ الہام پہلے سے ظاہر کیا جائے) جو لگائی ہے وہ بھی آپ کے پیشرو کے قول سے لائق اعتبار نہیں ہے۔
دیکھو (ازالہ اوہام ص۲۱۱، ۲۱۲، خزائن ج۳ ص۲۰۴،۲۰۵) جس کی یہ عبارت ہے۔ ’’اس جگہ پیغمبر خداﷺ کے بیان سے بخوبی ثابت ہوگیا جو وحی ٔ کشف یا خواب کے ذریعہ سے کسی نبی کو ہووے۔ اس کی تعبیر کرنے میں غلطی بھی ہوسکتی ہے‘‘
اور یہ عبارت: ’’اس حدیث میں بھی آنحضرتﷺ نے صاف طور پر فرمادیا کہ کشفی امور کی تعبیر میں انبیاء سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔‘‘
اور (ازالہ اوہام ص۶۳، خزائن ج۳ ص۱۳۳،۱۳۴) میں ہے: ’’اور حقیقت مقصودہ سے بے نصیب رہنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو یہ چاہتے ہیں کہ حرف حرف پیش گوئی کا ظاہری طور پر جیسا کہ سمجھا گیا ہو پورا ہو جائے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔‘‘
اور (ازالہ اوہام ص۶۹، خزائن ج۲ ص۱۳۶) میں ہے: ’’جس قدر دنیا میں ایسے نبی یا ایسے
۱؎ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس معجزہ کا انکار ہے جو بنص قرآنی ثابت اور علماء اسلام کا مسلم امر ہے۔