اور (ازالہ اوہام ص۳۰۷، خزائن ج۳ ص۲۵۷ حاشیہ) میں ہے: ’’اس جگہ یہ بھی جاننا چاہئے کہ سلب امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب عمل الترب کی شاخیں ہیں۔ ہر ایک زمانے میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعے سے سلب امراض کرتے رہے ہیں اور مفلوج، مبروص، مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں۔ جن لوگوں کی معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی وسہروردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشاق گذرے ہیں کہ صدہا بیماروں کو اپنے یمین ویسار میں بٹھا کر صرف نظر سے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین بن عربی صاحبؒ کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی۔ اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے اور اب یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت مسیح بن مریم علیہا السلام باذن وحکم الٰہی الیسع نبی علیہ السلام کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے۔ گو الیسع کے درجۂ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۷) میں ہے: ’’مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم علیہا السلام سے کم نہ رہتا۱؎۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۰، خزائن ج۳ ص۲۵۸) میں ہے: ’’واضح ہو کہ اس عمل جسمانی کا ایک نہایت برا خاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے اور جسمانی مرضوں کے رفع دفع کرنے کے لئے اپنے دلی ودماغی طاقتوں کو خرچ کرتا رہے وہ اپنے ان روحانی تاثیروں میں جو
۱؎ ناظرین ان اقوال سے بدیہۃً معلوم کر سکتے ہیں کہ کس قدر بیباکانہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کی شان میں گستاخانہ کلمات ہیں جو حد کفر تک پہنچاتے ہیں۔ نعوذ باﷲ من ہذہ الشقاوۃ!