… آپ لوگوں کا تائید آسمانی کو صرف ایک ہی مصداق (ازالہ مرض) کے ساتھ خاص کرنا جیسا کہ صفحہ۶ میں مرقوم ہے کہ (چند بیمار مصیبت زدہ باتفاق فریقین منتخب ہوکر بطور قرعہ اندازی ان کو اس طرح پر تقسیم کر لیں، کہ نصف ان میں سے ہمارے امام الوقت کے حصے میں آویں، اور نصف ان میں سے آپ لوگوں کے حصے میں آویں، اور اسی جلسہ میں فریقین دعا کریں کہ یا الٰہی ان دونوں گروہوں میں سے جو سچا گروہ ہے اس کی دعا کی قبولیت ظاہر فرما اور اس کو غالب کر۔ اس کے بعد اگر کسی فریق کے حصہ کے مصیبت زدہ جلد یا دیر سے سب کے سب ان مصیبتوں سے رہائی پاجائیں یا اکثر رہائی پائیں تو وہی فریق صادق سمجھا جائے گا) اوّل تو یہ ایک بے دلیل بات ہے اور پھر علیٰ فرض التسلیم جو صورت کہ خاص کی گئی ہے۔ وہ بقول آپ ہی کے پیشرو کے تائید آسمانی نہیں بن سکتی۔ بلکہ ایک مسمریزم کا عمل ہے۔ جس کو خود آپ کے پیشرو مکروہ وقابل نفرت سمجھتے ہیں۔ گو اس فعل کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب بھی کیا ہے۔ لیکن اپنے کو روحانی طریق پسند ہونے سے ایسے اعمال کا رد لکھا ہے۔
چنانچہ (ازالہ اوہام حاشیہ ص۳۰۵،۳۰۶، خزائن ج۳ ص۳۵۶) میں مرقوم ہے۔ ’’عمل الترب میں جس کو زمانۂ حال میں مسمریزم کہتے ہیں۔ ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں۔ انسان کی روح میں کچھ ایسی خاصیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی گرمی ایک جماد پر جو بالکل بے جان ہے ڈال سکتی ہے۔ تب جماد سے وہ بعض حرکات صادر ہوتے ہیں۔ جو زندوں سے صادر ہوا کرتے ہیں۔ راقم رسالہ ہذا نے اس علم کے بعض مشق کرنے والوں کو دیکھا جو انہوں نے ایک لکڑی کی تپائی پر ہاتھ رکھ کر ایسا اپنی حیوانی روح سے اسے گرم کیا کہ اس نے چارپائیوں کی طرح حرکت کرنا شروع کر دیا اور کتنے آدمی گھوڑے کی طرح اس پر سوار ہوئے اور اس کی تیزی اور حرکت میں کچھ کمی نہ ہوئی۔ سو یقینی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص اس فن میں کامل مشق رکھنے والا مٹی کا ایک پرند بنا کر اس کو پرواز کرتا ہوا بھی دکھا دے تو کچھ بعید نہیں۔ کیونکہ کچھ اندازہ نہیں کیاگیا کہ اس فن کے کمال کی کہاں تک انتہاء ہے اور جب کہ ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ اس فن کے ذریعے سے ایک جماد میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ جانوروں کی طرح چلنے لگتا ہے۔ تو پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے۔‘‘