اور لیجئے! اگر آپ اس سفر سے بھی ڈرتے ہیں تو ہم آپ کو اس سے بھی زیادہ تر آسان سے آسان طریقہ بقول آپ ہی کے بتلاتے ہیں۔ جو فقط ایک ہی بات میں احقاق حق وابطال باطل ہو جاتا اور مسلمانوں کا باہمی اختلاف مٹ جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ (ضرورۃ الامام ص۱۲، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳) میں خود آپ لکھتے ہیں کہ: ’’غرض جو لوگ امام الزمان ہوں گے ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے۔ بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کے لئے نہایت مفید اور مبارک ہوتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کے دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال اور جواب کا ایک سلسلہ منعقد ہو کر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب۔ ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور امام الزمان کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے ایک کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا اور کہاں گیا۔ بلکہ خداتعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار دیتا ہے اور یہ کیفیت دوسروں کو میسر نہیں آتی۔ بلکہ وہ تو بسا اوقات اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے اور امام الزمان کی الہامی پیش گوئیاں اظہار علے الغیب کا مرتبہ رکھتے ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے قبضے میں کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے اور یہ قوت اور انکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے کہ ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تادوسروں پر حجت ہو سکیں۔‘‘
اس کے بعد (ضرورت الامام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵) میں لکھتے ہیں: ’’بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے۔ جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملہمونوں کو کرنی خدائے تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیاگیا ہے۔ سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں۔‘‘